دنیا بھر کے ماہرین نے کرہ ارض کو ایک اور عالمی وبا سے بچانے کے لیے چمگادڑوں پر تحقیق شروع کردی، ماہرین کے مطابق چمگادڑ انسانوں اور مویشیوں میں مہلک وائرس منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث سائنسدانوں نے اگلی عالمی وبا سے بچاؤ کے لیے چمگادڑوں پر توجہ مرکوز کردی ہے اور برازیل کے سائنسدان بھی اسی تحقیق کی دوڑ میں شامل ہیں۔
برازیل کے دوسرے بڑے شہر ریو ڈی جینیرو کے پیڈرا برانکا اسٹیٹ پارک میں رات کے وقت چمگادڑوں کی تلاش کی گئی، نومبر کے مہینے میں رات کے وقت انجام دی جانے والی سرگرمی برازیل کے ریاستی فیوکرز انسٹی ٹیوٹ کے پروجیکٹ کا حصہ تھی جس کا مقصد جنگلی جانوروں بشمول چمگادڑوں کو جمع کرنا اور ان میں موجود وائرسز پر تحقیق کرنا تھا۔
کئی سائنسدان یہ مانتے ہیں کہ کرونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کا تعلق چمگادڑوں سے ہے۔
اب اس تحقیق کا مقصد دیگر وائرسز کی نشاندہی کرنا ہے جو انسانوں کے لیے انتہائی جان لیوا اور مہلک ثابت ہوسکتے ہیں اور ان معلومات کو ایسا پلان مرتب کرنے میں استعمال کرنا کہ لوگوں کو ان کا شکار ہونے سے بچایا جاسکے، یعنی ممکنہ عالمی مرض کے پھیلاؤ کو روکنا ہے اس سے قبل کہ وہ شروع ہوجائے۔
برازیل کی یہ ٹیم دنیا بھر کی کئی ٹیمز میں سے ایک ہے جو اسی صدی میں دوسری عالمی وبائی کے خطرے کو کم کرنے کی دوڑ میں شامل ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کا کافی امکان موجود ہے کہ کسی مداخلت کے بغیر ایک اور نوول وائرس جانور سے انسان (ہوسٹ) میں منتقل ہوگا اور جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے کا موقع تلاش کرے گا۔
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ چمگادڑ متعدد وائرسز کے اصل یا انڈرمیڈری ہوسٹس (یعنی کسی اور چیز سے منتقل ہو کر وائرس بعد میں چمگادڑ کے ذریعے انسانوں میں پھیلا) ہے، جو حال ہی میں کووڈ 19، سارس، مرس، ایبولا، نیپاہ وائرس، ہیندرا وائرس اور مار برگ وائرس کی وبا کی وجہ بنی۔
خیال رہے کہ چمگادڑ ایک متنوع گروہ ہے، جس کی انٹارکٹیکا کے سوا ہر براعظم میں 1400 سے زائد اقسام موجود ہیں لیکن اکثر میں ایک چیز مشترک ہے کہ وہ انسانوں اور مویشیوں میں مہلک وائرس منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ خود چمگادڑوں میں ان بیماریوں کی علامات ظاہر نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔