جمعہ, مئی 9, 2025
اشتہار

معرکۂ زلاقہ اور مسلم اسپین کے تین سو سال

اشتہار

حیرت انگیز

تاریخ کے اوراق یوسف بن تاشفین کو عالمِ‌ اسلام کا عظیم مجاہد اور حکم راں ثابت کرتے ہیں جس نے عیسائی بادشاہ الفانسو ششم کی فوج کو شکست دی تھی اور اسی فتح کے نتیجے میں اگلے تین سو سال تک اسپین پر مسلمانوں کی حکم رانی قائم رہی۔

یہ جنگ سنہ 1086ء میں اکتوبر کے مہینے میں لڑی گئی تھی۔ اس میں دولتِ مرابطین کے عظیم مجاہد یوسف بن تاشفین اور اسپین کے مختلف علاقوں پر مشتمل مملکت قشتالہ (Kingdom of Castile) کے بادشاہ الفانسو ششم کی فوج جس میدان میں آمنے سامنے تھی وہ زلاقہ کے نام سے مشہور ہے جس سے مراد ”پھسلتا ہوا میدان“ ہے۔ مؤرخین کے مطابق اس معرکے میں اس قدر خون بہا کہ افواج کو میدان میں قدم جمانے میں مشکل ہونے لگی اور اسی نسبت سے یہ زلاقہ کہلایا۔ عیسائی اس جنگ کو Battle of Sagrajas کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلم اسپین اپنے حکم رانوں کی نااہلی اور کم زوریوں کی وجہ سے غیروں کی نظر میں آگیا تھا اور وہ اس کا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ یوسف بن تاشفین عیسائی حکم راں کے مقابلے پر نہ آتے تو 1092ء میں ہی مسلمان اپنا اقتدار کھو چکے ہوتے۔

زلاقہ کی جنگ کو صلیبی جنگوں کے آغاز کی بنیادی وجہ بھی سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ اس معرکے میں الفانسو کے لشکر کی شکست کے بعد ہی عیسائی حکم راںوں نے مسلمانوں کے خلاف منظّم ہو کر جارحیت کا سلسلہ شروع کیا تھا۔

مشہور عالمِ‌ دین اور مؤرخ امام ذہبی نے اپنی شاہکار تصنیف تاریخِ الاسلام میں اُس دور کے کچھ واقعات رقم کیے ہیں۔ امام صاحب لکھتے ہیں کہ جب مسلم اندلس میں طوائف الملوکی پھیلی تو صلیبی بادشاہ الفانسو نے اس کا فائدہ اٹھانے کا سوچا اور سب سے پہلے اشبیلیہ کے حاکم معتمد بن عباد سے اس کا علاقہ چھیننے کے لیے تیّاری کرنے لگا، یہ اطلاع ملوک الطوائف میں سب سے نمایاں حاکمِ اشبیلیہ تک پہنچی تو وہ بہت پریشان ہوا کیوں کہ وہ الفانسو کے مقابلے میں بہت کم زور تھا۔ تب، معتمد بن عباد نے مراکش کے سلطان یوسف بن تاشفین سے مدد چاہی۔ اس پر امراء اور اعیانِ سلطنت نے اس کی توجہ دلائی کہ سلطان اگر اندلس آیا تو الفانسو کو شکست دینے کے بعد وہ معتمد کو بھی حاکم نہ رہنے دے گا۔ امام صاحب نے لکھا ہے کہ یہاں معتمد نے اپنا وہ تاریخی جملہ کہا: دیکھو، یوسف بن تاشفین کے اونٹ چرانا الفانسو کے خنزیر چرانے سے کہیں بہتر ہے!

چند مؤرخین نے معتمد کا یہ قول نقل کیا ہے: "میں تو کھایا ہی جانے والا ہوں، مگر اندلس پر آج اگر اسلام کا سورج غروب ہوتا ہے تو منبروں اور محرابوں سے آنے والی کئی صدیوں تک جو لعنت مجھ پر ہوتی رہے گی، میں وہ کیوں مول لوں؟”

واقعتاً اعیانِ سلطنت کے وہ تمام خدشات سچ ثابت ہوئے۔ جنگ میں سلطان کی فتح کے بعد معتمد کو بھی اپنے تخت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ یہی نہیں بلکہ اس کی ساری زندگی قید میں گزری۔ مؤرخین کے مطابق اسے برس ہا برس بعد ایک بار عید کے موقع پر بیٹیوں سے ملاقات کی اجازت ملی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کی بیٹیاں سُوت کات کات کر گزر اوقات کر رہی ہیں۔ اس پر معتمد نے تڑپ کر شعر بھی کہے۔ یہ مشہور تاریخی قصّہ ہے جسے شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے بھی اپنے کلام میں بیان کیا ہے۔

مؤرخین کی اکثریت نے لکھا ہے کہ زلاقہ کے مشہور معرکے میں مرابطین کے مجاہدین کی تعداد 48 ہزار سے زیادہ نہ تھی جب کہ الفانسو نے ایک لاکھ جاں بازوں کو میدان میں اتارا تھا۔ لیکن وہ ڈھیر ہوتے چلے گئے اور کہتے ہیں‌ کہ اس معرکے میں سلطان یوسف بن تاشفین سے بچ کر جانے والے صلیبی سپاہی تعداد میں بہت ہی کم تھے۔ یوں اندلس میں مزید تین صدیوں تک اذان گونجتی رہی۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں