منگل, اکتوبر 8, 2024
اشتہار

تحریکِ‌ آزادی اور بیگم حسرت موہانی

اشتہار

حیرت انگیز

قیام پاکستان اس طویل جدوجہد کا ثمر ہے جو مسلمانانِ برصغیر نے اپنے علیحدہ قومی تشخص کی خاطر شروع کی اور اس کوشش میں خواتین نے بھی مردوں‌ کے شانہ بشانہ کام کیا اور اپنا کردار بخوبی نبھایا انگریزی سامراج کے خلاف اور ہندوستان کی عورتوں میں سیاسی شعور اجاگر کرنے کے لیے جن خواتین نے تگ و دو کی، ان میں سر فہرست مادر ملت فاطمہ جناح، بیگم مولانا محمد علی جوہر، بیگم سلمٰی تصدق حسین، بیگم جہاں آراء شاہنواز، بیگم رعنا لیاقت علی سمیت متعدد عظیم خواتین شامل تھیں۔ یہ وہ خواتین ہیں بے خوف اور نڈر ایسی تھیں کہ سامراج یا مسلمان دشمن ہندو قیادت کو کئی مواقع پر پیچھے ہٹنا پڑا۔

ہندوستان کی جدوجہدِ آزادی کا ایک دل آویز کردار اور بیسویں صدی کی چند باہمت اور متحرک خواتین میں بیگم حسرت موہانی کا نام بھی شامل ہے۔ نشاط النسا بیگم ان کا اصل نام تھا، لیکن بیگم حسرت موہانی کے نام سے مشہور ہوئیں۔ وہ ہندوستان کی ان خواتین میں سے تھیں جن کے شوہروں نے آزادی ہند کی خاطر انگریزوں کے خلاف قلم کی طاقت سے بھی کام لیا اور سرکار مخالف جلسوں اور تحریکوں میں بھی آگے آگے رہے۔ اس دوران مار پیٹ، گرفتاری اور سزا پانے والے اپنے خاوند کا ان عورتوں نے حوصلہ بڑھایا اور انھیں اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹنے کی تلقین کرتے ہوئے یقین دلایا کہ وہ ہر کڑے وقت میں ان کے ساتھ ہیں۔ بیگم حسرت موہانی نے بھی نہ صرف یہ سب دیکھا، اور جھیلا بلکہ گھر کی ذمہ داریاں بھی نبھاتی رہیں اور تحریک کے لیے بھی کام کیا۔

ایک موقع پر جب حسرت موہانی کو انگریزوں نے گرفتار کر لیا تو بیگم حسرت موہانی نے آزادی کی تحریک میں اپنا نام لکھوا لیا اور تحریک میں حصہ لیا۔ ہندوستان کی مجاہد خواتین کی تاریخ لکھی جائے تو بیگم حسرت کا ذکر لازمی کیا جائے گا۔

- Advertisement -

نشاط النسا بیگم 1885 میں موہان کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق فارسی اور عربی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ شادی کے بعد انھوں نے حسرت موہانی کے ساتھ اخبار اور دیگر کام بھی دیکھے اور ہر موقع پر ان کی مدد کی۔ نشاط النسا بیگم آل انڈیا کانگریس ورکنگ کمیٹی کی ممبر تھیں۔

بیگم حسرت موہانی کے عزم و استقلال اور ان کی تحریکی سرگرمیوں اور شوہر پرستی نے انھیں دیگر خواتین میں ممتاز کیا اور سبھی ان کی شخصیت اور عمل سے متاثر رہے۔ اس وقت کے جید اور ممتاز راہ نماؤں اور شخصیات نے بیگم حسرت موہانی کی ہمت اور ان کی قربانیوں کا اعتراف کیا ہے۔ وہ تعلیم نسواں کی بڑی حامی تھیں۔ نامساعد حالات، تحریکی کاموں کا دباؤ اور دیگر ذمہ داریوں‌ کے ساتھ مالی دشورایوں نے انھیں جلد تھکا دیا اور وہ بیمار رہنے لگیں۔ 18 اپریل 1937 کو ہندوستان کی آزادی کا خواب دیکھنے اور اس کے لیے میدانِ عمل میں‌ متحرک نظر آنے والی یہ عظیم خاتون خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں