لندن: برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص بین ہوپر کا عزم ہے کہ وہ دنیا کا دوسرا بڑا سمندر بحر اوقیانوس تیر کر پار کرے گا، لیکن اس کے اس عزم میں مختلف سمندری حیات رکاوٹ بن رہی ہیں۔
اڑتیس سالہ بین ہوپر جو پیشے کے لحاظ سے ایک پولیس افسر ہے، بحر اوقیانوس کو تیر کر پار کرنا چاہتا ہے تاکہ دنیا کو بتا سکے کہ اگر کچھ کرنا چاہیں تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔
وہ رانولف فنیز نامی مہم جو کو اپنا آئیڈیل سمجھتا ہے جس نے انٹارکٹک کے برفانی خطے کا پیدل سفر طے کیا تھا۔
بین نے اپنا سفر مغربی افریقی ملک سینیگال سے شروع کیا جو برازیل پر اختتام پذیر ہونا تھا۔ بین اور ان کی ٹیم کے اندازوں کے مطابق یہ سفر 4 سے 5 ماہ میں مکمل ہوجانا چاہیئے۔
تاہم یہ اتنا آسان نہیں ہے۔
بین نے جب اپنا سفر شروع کیا تو بہ مشکل 67 ناٹیکل میل کے فاصلے کے بعد ہی اسے مختلف سمندری حیات سے پالا پڑگیا جنہوں نے اس کے سفر کو ناکام بنانے کی کوشش شروع کردی۔
اس کا کہنا ہے کہ اسے روزانہ جیلی فش کے ڈنک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بین نے دو بار مختلف مقامات پر شارکس کو بھی دیکھا۔ ’یہ اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے جتنا ہم نے سوچا تھا‘۔
بین سنہ 2013 سے اس کی مشق کر رہے ہیں لیکن اب اصل امتحان کافی سخت ہے۔ لیکن بین کا عزم ہے کہ وہ اپنے ارادے کی تکمیل کرے گا اور بحر اوقیانوس کو پار کر کے رہے گا۔
بین چاہتا ہے کہ وہ دنیا کاپہلا شخص بنے جو بحر اوقیانوس کو تیر کر پار کرے۔
واضح رہے کہ بحر اوقیانوس دنیا کا دوسرا بڑا سمندر ہے جو 10 کروڑ سے بھی زائد اسکوائر کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔