بدھ, جنوری 8, 2025
اشتہار

بے نظیر بھٹو شہید : دختر مشرق، جمہوریت اور بہادری کی علامت

اشتہار

حیرت انگیز

جمہوریت، مساوات، انصاف اور بہادری کی علامت دختر مشرق شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو ان کی شہادت کے 17 سال بعد بھی پاکستانی قوم خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔

تاریخ ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے سماجی انصاف، فلاح و بہبود، انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں کے لیے اپنی جانیں قربان کیں، خاص طور پر جنوبی ایشیا میں جہاں جمہوریت ہمیشہ مارشل لا کی زد میں رہی اور اس ادارے کو کبھی پھلنے پھولنے کا موقع نہ دیا گیا۔

کئی رہنماؤں کو جمہوری حقوق کے لیے اپنی زندگیاں تک قربان کرنی پڑیں، بے نظیر بھٹو بھی ان ہی رہنماؤں میں سرفہرست ہیں جنہوں نے ملک میں جمہوریت کے عظیم مقصد سے وابستگی کو کبھی ترک نہیں کیا، حالانکہ ان کی حکومت دو بار سازشوں کے تحت ختم کر دی گئی تھی۔

- Advertisement -

بے نظیر بھٹو پاکستان کی ایک عظیم رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر عزت و وقار کے ساتھ پاکستانی قوم کی نمائندگی کرتی تھیں۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم

بے نظیر بھٹو 70 کلفٹن کراچی میں پیدا ہوئیں اور وہیں پروان چڑھیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کنونٹ آف جیزس اینڈ میری اسکول میں حاصل کی۔ اے لیولز مکمل کرنے کے بعد 1969 میں ہارورڈ یونیورسٹی گئیں اور فلسفہ، سیاست اور معیشت کی تعلیم حاصل کی۔ گریجویشن کے بعد 1973میں اعلی تعلین کے حصول کیلیے آکسفورڈ یونیورسٹی گئیں۔

سیاسی جدوجہد کی ابتدا

آکسفورڈ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ وطن واپس آئیں، جہاں ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے۔ 1977 میں انہوں نے مختصر مدت کے لیے وزارتِ خارجہ میں کام کیا، جو ان کا ایک شوق بھی تھا مگر جلد ہی حالات نے ان کے والد کی حکومت کے خلاف سازشوں کا جاک بُنا گیا۔

پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا، لیکن اس تحریک کے دوران 4 جولائی 1977 کی رات مارشل لا لگا کر بھٹو حکومت کا خاتمہ کردیا گیا۔

جمہوری جدوجہد اور قربانیاں

بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کے مقدمے کے دوران بھرپور جدوجہد جاری رکھی مگر 4 اپریل 1979کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ یہ ان کی زندگی کا سب سے المناک وقت تھا۔ لیکن انہوں نے جمہوریت کی بحالی اور اپنے والد کے مشن کو جاری رکھنے کے لیے ہمت نہیں ہاری۔

بعد ازاں 18اگست 1987 کو جنرل ضیاء الحق کی موت کے بعد ملک میں عام انتخابات کا اعلان ہوا اور بے نظیر بھٹو کی جماعت پیپلز پارٹی نے ملک بھر سے پاکستان پیپلز پارٹی کو منظم کیا۔ 10 اپریل 1986 کو ان کی جلا وطنی ختم ہوئی، اور لاہور میں ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔

بعد ازاں 18اگست 1987 کو جنرل ضیا الحق کی موت کے بعد انتخابات کا اعلان ہوا اور بے نظیر نے پاکستان پیپلز پارٹی کو دوبارہ منظم کیا۔ 10 اپریل 1986 کو ان کی جلا وطنی ختم ہوئی، اور لاہور پہنچنے پر ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔

پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِاعظم

سال 1988کے انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کرکے بے نظیر بھٹو نے 2 دسمبر 1988 کو وزیراعظم کا حلف اٹھایا، اور وہ نہ صرف پاکستان بلکہ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بن گئیں۔ لیکن ان کی حکومت محض 20 ماہ کے بعد آئین کے آرٹیکل 58 ٹوبی کے تحت ختم کردی گئی۔

سیاسی مشکلات اور ذاتی المیے

بے نظیر بھٹو شہید کے سیاسی سفر میں ان کی ذاتی زندگی میں کئی دکھ بھرے واقعات شامل تھے۔ ان کے بھائی میر شاہ نواز بھٹو کو پیرس میں قتل کیا گیا جبکہ دوسرا بھائی میر مرتضیٰ بھٹو 1996 میں ان پہی دور حکومت میں کراچی میں ان کے گھر 70کلفٹن کے قریب ہی قتل ہوا لیکن ان تمام تر مشکلات و مصائب کے باوجود انہوں نے اپنی جمہوری جدوجہد کو جاری رکھا۔

آخری سفر اور وراثت

سال 2007میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے ’میثاق جمہوریت‘ (چارٹر آف ڈیموکریسی) پر دستخط کیے۔ 18 اکتوبر 2007 کو بے نظیر جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس لوٹیں۔

ان کی ریلی پر کراچی میں کارساز کے مقام پر حملہ ہوا جس میں 139 لوگ جاں بحق ہوئے مگر اس وقت خوش قسمتی سے وہ بچ گئیں۔ بعد ازاں 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں ایک سیاسی جلسے کے بعد ان پر دوسرا قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ شہید ہوگئیں۔

بے نظیر بھٹو جمہوریت، انسانی حقوق، اور خواتین کے حقوق کی علمبردار تھیں۔ ان کی قربانیوں اور جمہوری خدمات کی یاد آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں