تازہ ترین

مسلح افواج کو قوم کی حمایت حاصل ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

ملت ایکسپریس واقعہ : خاتون کی موت کے حوالے سے ترجمان ریلویز کا اہم بیان آگیا

ترجمان ریلویز بابر رضا کا ملت ایکسپریس واقعے میں...

صدرمملکت آصف زرداری سے سعودی وزیر خارجہ کی ملاقات

صدر مملکت آصف علی زرداری سے سعودی وزیر خارجہ...

خواہش ہے پی آئی اے کی نجکاری جون کے آخر تک مکمل کر لیں: وفاقی وزیر خزانہ

اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا...

بنجمن فرینکلن کی وہ عادت جس نے اس کا احساسِ شرمندگی دور کیا

غربت اور مفلسی کو اپنے ارادے کی پختگی، محنت اور لگن سے شکست دے کر غیرمعمولی اور مثالی کام یابیاں سمیٹنے والے بنجمن فرینکلن نے آج ہی کے دن یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

بنجمن فرینکلن کی خود نوشت سے یہ اقتباس پڑھیے جو اس کی زندگی کی وضاحت کرتا ہے۔

"میں اپنی کام یابیوں اور کارناموں سے بہت خوش تھا، کام یابی میرے قدم چوم رہی تھی مگر اس کے باوجود مجھے یہ سب خوشیاں خالی خولی نظر آتیں۔ مجھے سب کچھ کھوکھلا سا دکھائی دیتا۔ ایک بار میں نے تنہائی میں بیٹھ کر اس چیز کا جائزہ لیا تو مجھے پتہ چلا کہ میں ایک اچھا دوست یا ساتھی نہیں تھا۔ میں صرف لوگوں سے اسی بات کی توقع رکھتا تھا کہ وہ میری عزّت کریں، میری تعریف کریں، خود میں کبھی بھی کسی کے لیے مدد گار ثابت نہیں ہوا تھا۔ مختصر یہ کہ میں صرف حاصل کرنے پر یقین رکھتا تھا نہ کہ دینے پر۔

اس روز میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنے آپ کو یکسر بدل ڈالوں گا اور میں نے 12 نیکیوں کا انتخاب کرلیا اور فیصلہ کیا کہ ہر روز ان میں سے ایک میں کروں گا اور ہوسکے تو پوری کی پوری نیکیاں ایک دن میں کر کے دکھاؤں گا اپنے آپ کو۔ اب میرا یہ اصول ہوگیا تھا کہ میں جس روز ایسا نہ کرتا اپنے روزنامچے میں ان نیکیوں یا خوبیوں کے آگے صفر لکھ دیتا۔ صفر دیکھ کر مجھے بہت شرمندگی ہوتی۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ میں اس بارے میں بڑا پکا اور مضبوط ہو گیا۔ اب میرے روزنامچے میں صفر نہیں ہوتا تھا۔”

بنجمن فرینکلن 17 جنوری 1706ء کو امریکا کے شہر بوسٹن میں پیدا ہوا تھا۔ اسے ایک سیاست دان، تاجر، ناشر، سائنس دان اور سفارت کار کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ بنجمن فرینکلن کو چار زبانیں آتی تھیں۔

بوسٹن میں اس کا خاندان مفلسی کی زندگی بسر کررہا تھا بنجمن نے جب سنِ شعور میں قدم رکھا تو بوسٹن سے نکل کر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ وہ فلاڈیلفیا چلا آیا۔ تہی دامن بنجمن فرینکلن نے یہاں پہنچ کر چھوٹے موٹے کام کرکے گزر بسر شروع کی۔ جلد ہی کسی طرح‌ اسے اشاعت و طباعت کا کام مل گیا اور وہ ناشر بن کر اس کام سے خوش حال ہو گیا۔ اسے پڑھنے لکھنے کا شوق شروع ہی سے تھا۔ سائنس میں‌ اس کی دل چسپی پڑھنے کی حد تک ہی نہیں تھی بلکہ وہ تجربات بھی کرتا رہتا تھا۔ فارغ وقت میں سائنسی کتب پڑھ کر ان کی مدد سے مختلف بنیادی سائنسی فارمولوں، اشیا اور مشینوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا اور سادہ تجربات بھی کرتا جس نے ایک دن اسے موجد بنا دیا۔

اس نے برقیات اور روشنی کے حوالے سے تحقیقی کام بھی کیا اور بطور سائنس دان بائی فوکل عدسہ، چولھا (اسٹوو) ایجاد کرنے میں کام یاب ہوگیا۔ یہ ایجادات اس کی وجہِ شہرت بنیں۔ لیکن اس کی کام یابیوں کا سفر یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ بحیثیت صحافی اور قلم کار بھی اس نے امریکا میں بڑی شہرت پائی۔

اشاعت و طباعت تو اس کا کام تھا ہی، اس نے بعد میں poor richard’s almanack کے عنوان سے ایک مقالہ بھی تحریر کردیا جس کا طرزِ تحریر بہت پسند کیا گیا۔ اس کے کئی برس بعد بنجمن فرینکلن کی خود نوشت سوانح منظرِ عام پر آئی اور یہ بہت مقبول ہوئی۔ آج بھی امریکی اسے رغبت سے پڑھتے ہیں۔ اس کتاب میں‌ بنجمن فرینکلن نے اپنی زندگی کے کئی اہم اور دل چسپ واقعات رقم کیے ہیں جو غربت سے اس کی امارت اور کام یابیوں کا احاطہ کرتے ہیں۔

اسی عرصے میں اس نے سیاست اور سفارت کاری کے میدان میں بھی امریکا میں‌ پہچان بنائی۔ اسے ایک قابل منتظم قرار دیا جاتا ہے جس نے نوآبادیاتی نظام کے تحت کام کیا۔ بعد میں وہ قانون ساز کے طور پر پنسلوانیا کی مجلس میں منتخب ہوا اور فرانس میں امریکا کا سفیر رہا۔ بنجمن امریکی آئین ساز مجلس کا بھی رکن تھا اور ان شخصیات میں‌ شامل ہے جنھوں‌ نے امریکا کے اعلانِ آزادی پر دستخط کیے تھے۔

17 اپریل 1790ء کو بنجمن فرینکلن نے پھیپھڑوں کے ایک مرض کے سبب زندگی کی بازی ہار دی تھی۔

Comments

- Advertisement -