اتوار, مئی 12, 2024
اشتہار

سلجوق حکم راں برکیاروق کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

سلجوق خاندان اور اس سے وابستہ شخصیات کو اسلامی دنیا میں خاص مقام حاصل ہے۔ یہ سلاجقہ ہی تھے جنھوں نے دولتِ عباسیہ کے زوال کے بعد عالمِ اسلام کو ایک مرکز پر اکٹھا کیا۔ سلجوق خاندان نے گیارہویں صدی عیسوی میں حکومت قائم کی تھی۔ اس خاندان سے رکن الدّین برکیاروق نے چوتھے حکم راں کی حیثیت سے شہرت پائی۔  

سلجوق سلطنت کے بانی نسلاً اوغوز ترک تھے۔ سلطان ملک شاہ اوّل کا انتقال 1092ء میں ہوا جن کے بیٹے برکیاروق تھے۔ وہ زبیدہ خاتون کے بطن سے تولد ہوئے۔ ملک شاہ اوّل کی وفات کے بعد سلجوق خاندان میں اقتدار کی جنگ شروع ہو گئی جس نے سلطنت کو تقسیم کردیا۔ اس وقت تک سلجوق سلطان وسطی ایشیا اور یوریشیا کے علاقوں میں اسلام کا پرچم بلند کرچکے تھے، مگر بعد میں سلجوق خاندان میں انتشار نے ان کی طاقت اور اثر کم کر دیا تھا۔

تاریخ کے ماہرین اور محققین برکیاروق کا سنہ پیدائش 1081ء بتاتے ہیں۔ مؤرخین کے مطابق ان کا اقتدار 1104ء میں ان کی وفات تک قائم رہا۔ تاریخ کی کتب میں ان کا یومِ‌ وفات 2 دسمبر لکھا ہے۔

- Advertisement -

ملک شاہ کی وفات کے بعد برکیاروق کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ دراصل سلطان کے بعد اس کے بھائیوں اور چار بیٹوں میں اختلافات پیدا ہوگئے تھے اور ترکان خاتون جو ملک شاہ کی دوسری بیوی تھی، اپنے نوعمر بیٹے کو سلطان بنانا چاہتی تھی اور امراء سے معاملات طے کرکے اس کی خواہش پر برکیاروق کو قیدی بنا لیا گیا تھا۔ محمود اس وقت نہایت کم عمر تھا اور سلطان کے طور پر اس کے نام کے اعلان کے لیے عباسی خلیفہ سے بھی اجازت لے لی گئی، لیکن صورتِ حال خراب ہوتی چلی گئی۔ ادھر برکیاروق کی حقیقی والدہ زبیدہ بیگم نے بھی اہم اور طاقت ور شخصیات سے رابطے کر کے کسی طرح اصفہان میں قید اپنے بیٹے کو آزاد کروا لیا اور انہی امراء کی پشت پناہی سے تخت پر بھی بٹھا دیا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس وقت ترکان خاتون اپنے بیٹے محمود اول کے ساتھ دارالخلافہ بغداد میں تھی اور وہ کچھ نہ کرسکی۔ فوج نے برکیاروق کا حکم مانا اور ان کی حکومت مستحکم ہو گئی۔ مگر اس کے لیے برکیاروق کو خاندان میں مزاحمت اور بغاوت کا سر کچلتے ہوئے کئی سازشوں اور یورشوں سے بھی نمٹنا پڑا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ خوں ریز تصادم، باغیوں اور سرکش گروہوں کو کچلنے کے بعد جب تخت کے تمام دعوے دار ختم ہو گئے، تو برکیاروق نے مکمل طور پر سلطنت کو سنبھالا۔

عباسی خلیفہ نے سلطان برکیاروق کو بغداد طلب کیا اور خلعت سے نوازا۔ ان کے نام کا خطبہ جامع بغداد میں پڑھوایا اور سلطنت کے اختیارات برکیاروق کو سونپتے ہوئے ان کی حکم رانی کا اعلان کیا۔ برکیاروق نے بعد میں کئی علاقوں کے سرداروں اور حکم رانوں کو اپنا مطیع اور تابع فرمان بنایا۔ لیکن امورِ سلطنت کو سنبھالتے ہوئے دور دراز کے علاقوں پر ان کا اپنی گرفت مضبوط رکھنا اور امراء و سپاہ پر حاکمیت اور اثر برقرار رکھنا آسان نہیں رہا تھا جب کہ اسی عرصے میں ان کی والدہ زبیدہ بیگم کو قتل کر دیا گیا اور حالات اتنے خراب ہوئے کہ خود سلطان برکیاروق کو بغداد چھوڑنا پڑ گیا۔ بعد میں وہ واپس ہوئے تو اپنے بھائی سے جنگ لڑنا پڑی اور جنگوں کا یہ سلسلہ جانی و مالی نقصان کے ساتھ بالآخر چند شرائط پر تمام ہوا۔ محمود اور سلطان برکیاروق نے اپنے علاقوں اور شہروں کی مستقل حکم رانی پر ایک معاہدہ کر لیا۔

سلطان برکیاروق کا دور لڑائیوں اور بغاوتیں فرو کرتے گزر گیا۔ وہ ایک مرض میں مبتلا ہوئے اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انھوں نے اپنے بیٹے ملک شاہ دوم کو اپنا ولی عہد مقرر کیا تھا جو اس وقت محض پانچ سال کا تھا۔ برکیاروق کی تدفین اصفہان میں کی گئی۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں