تازہ ترین

وزیراعظم شہبازشریف کو امریکی صدر جو بائیڈن کا خط، نیک تمناؤں کا اظہار

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر اعظم شہباز...

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

جون تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل کرلیا جائے گا، وفاقی وزیر خزانہ

کراچی : وزیرخزانہ محمداورنگزیب کا کہنا ہے کہ پی...

یومِ وفات: بھوپال کی شہزادی عابدہ سلطان کا تذکرہ

بھوپال کی شاہی ریاست کی بیگمات کا نام ان کی لیاقت اور علم و فنون کی سرپرستی کرنے کے حوالے سے زندہ رہے گا۔ ہندوستان کی اسی ریاست کی ایک شہزادی عابدہ سلطان بھی تھیں جو تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان چلی آئیں اور کراچی میں سکونت پذیر ہوئیں۔

برطانوی دور کے خاتمہ کے بعد دوسری بہت سی ریاستوں کی طرح بھوپال بھی ہندوستان کا حصّہ بن گیا اور اُس وقت شاہی ریاست بھوپال کے آخری حکم ران نواب حمید اللہ خان تھے جن کا وظیفہ مقرر کر دیا گیا تھا۔ انہی کی بڑی بیٹی اور آخری ولی عہد عابدہ سلطان تھیں۔

شہزادی عابدہ 11 مئی 2002 میں کراچی کے مضافاتی علاقے ملیر میں انتقال کر گئی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ شہزادی عابدہ سلطان نواب حمید اللہ خاں کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں۔ وہ 28 اگست 1913 میں پیدا ہوئی تھیں۔ شہزادی عابدہ پندرہ برس کی تھیں جب ریاست بھوپال کی ولی عہد بنیں۔ نواب صاحب 1926 کو بھوپال کے حکمراں بنے تھے۔ وہ اولادِ‌ نرینہ سے محروم تھے۔ عابدہ سلطان کی پرورش ان کی دادی کی نگرانی میں ہوئی۔ وہی قانونی طور پر ریاست کی سربراہ بن سکتی تھیں۔ دادی نے اسی انداز سے ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔ نہ صرف دینی علوم سے آراستہ کیا بلکہ تربیت کے حوالے سے انھوں نے کوئی کوتاہی نہ کی۔ ریاست کی ولی عہد ہونے کے ناتے ان کی انتظامی امور کے حوالے سے تمام ضروری تعلیم و تربیت کی گئی تھی۔ شہزادی کھیلوں کی بے حد شوقین تھیں۔ وہ پولو، اسکواش، کرکٹ اور ہاکی کی بہترین کھلاڑی تھیں۔ وہ جنگل میں شکار کا شوق بھی رکھتی تھیں اور بہترین نشانہ باز تھیں۔ کہتے ہیں انھوں نے ستّر سے زائد شیروں کا شکار بھی کیا تھا۔ انھیں ہوا بازی کا بھی شوق تھا اور ان کے پاس جہاز اڑانے کا باقاعدہ لائسنس بھی تھا۔ یوں کہیے کہ تمام مردانہ شوق یعنی گھڑ سواری سے لے کر بندوق چلانے تک میں انھیں پوری مہارت تھی۔ یہ طے تھا کہ وہی بھوپال کی پانچویں حکمراں بنیں‌ گی۔ لیکن تقسیم ہند کے بعد یہ ممکن نہ ہوسکا۔ سترہ سال کی عمر میں عابدہ سلطان کی شادی ریاست کوروائی کے حکمراں سے کر دی گئی اور وہ ایک بیٹے کی ماں بنیں‌ لیکن بوجوہ یہ شادی زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔ ان کے بیٹے کا نام شہریار محمد خان ہے جنھیں پاکستان میں اپنے اعلیٰ تعلیمی اور خاندانی پس منظر کے ساتھ بیوروکریٹ اور سفارتی امور اور کرکٹ سے وابستگی کے سبب پہچانا جاتا ہے۔

بھوپال سے پاکستان آجانے والی شہزادی عابدہ سلطان کو یہاں حکومت نے ااقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندہ اور بعد میں‌ ملکوں میں پاکستان کی سفیر بھی متعین کیا۔ 1956 میں جب حسین شہید سہروردی وزیر اعظم کی حیثیت سے چین کے دورے پر گئے تو شہزادی عابدہ سلطان بھی ان کے ہمراہ تھیں۔

1960 میں نواب حمید اللہ خاں کی وفات کے بعد عابدہ سلطان کو بھوپال کی بیگم بننے کی دعوت دی گئی لیکن انھوں نے انکار کرکے اپنی چھوٹی بہن کے حق میں دستبرداری ظاہر کر دی۔

1980 کی دہائی میں شہزادی نے اپنی ڈائریوں کی مدد سے اپنی یادداشتوں کو قلم بند کرنا شروع کیا تھا اور وفات سے دو ماہ قبل ہی یہ کام مکمل کیا تھا، ان کی کتاب 2004 میں انگریزی اور سنہ 2007 میں اردو میں شائع ہوئی۔

Comments

- Advertisement -