سپریم کورٹ کے فیصلوں اور احکامات پر نظر ثانی کا بل سینیٹ سے منظور کر لیا گیا اپوزیشن اراکین نے شدید احتجاج کیا اور چیئرمین ڈائس کا گھیراؤ کیا۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق سینیٹ کا اجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہوا جس میں سپریم کورٹ کے فیصلوں اور احکامات پر نظر ثانی کا بل منظور کر لیا گیا۔ رائے شماری میں تحریک کے حق میں32 جب کہ مخالفت میں 21 میں ووٹ آئے۔ اس موقع پر اپوزیشن اراکین نے شدید احتجاج کیا اور چیئرمین ڈائس کا گھیراؤ کیا۔ اپوزیشن کی جانب سے جعلی بل نامنظور اور امپورٹڈ حکومت نامنظور کے نعرے لگائے گئے۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر شہزاد وسیم نے چیئرمین سینیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل نان سینس ہے اور ان کی یہ زبردستی نہیں چلے گی جس پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کہا کہ مجھے بل لینے دیں پھر کمیٹی کو بھجواتے ہیں۔
وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے بل کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون سازی پروسیجرل ہے۔ نظر ثانی میں لوگوں کے ساتھ ظلم ہوتا ہے جس کو بہتر کرنے کے لیے پروسیجرل قانون لایا گیا ہے۔ آرٹیکل 188 میں نظر ثانی اختیار کا ذکر کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ میں پارلیمنٹ کے قانون کے تحت نظر ثانی کا اختیار ہوگا۔ قومی اسمبلی میں یہ نجی بل آیا تو حکومت نے مخالفت نہیں کی اور سینیٹ میں بھی اس بل کی حکومت مخالفت نہیں کرتی۔ پی ٹی آئی اپنی احتجاج کی دکان بند کریں ورنہ یہ بل پاس ہو گا۔
پی ٹی آئی سینیٹر نے کہا کہ یہ سودا بیچنے آتے ہیں اس لئے کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ دکان ہے۔ ان کا آئین اور قانون سے کوئی تعلق نہیں یہ سوداگر ہیں اور سودا کرنے آتے ہیں۔ یہ اپنی نااہلی کے کیسز معاف کرانے کیلئے نیب ترامیم لا رہے ہیں۔ پہلے انھوں نے کرپشن کے کیسز معاف کرائے اور اب نااہلی کے کیسز معاف کرانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے چیئرمین سینیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے حکومتی رویہ دیکھ لیا۔ یہ صبح وشام پارلیمنٹ کو سپریم کہتے ہیں اور آج اسی کی توہین کر رہے ہیں۔ یہ خود توہین پارلیمنٹ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ انھوں نے پارلیمنٹ کو دھمکی دی کہ بل پاس کرا کر رہیں گے جب ان کے پاس دلیل نہیں ہوتی تو خالی دھمکیاں رہ جاتی ہیں۔
سینیٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنے عمل سے ظاہر کر رہا ہے کہ حکومت کا ذیلی ادارہ ہے۔ الیکشن کمیشن انتخابات کرانے کو تیار نہ ہو اور کوئی تنقید کرے تو کہتے ہیں توہین کر دی۔ جب کہ خود پارلیمنٹ کے پیچھے چھپ کر توہین عدالت کرنے جا رہے ہیں۔ ان کا نشانہ تحریک انصاف اور اس کی لیڈر شپ ہے۔ یہ بار بار لیڈرشپ پر پرچے بھی کراتے ہیں
پی ٹی آئی سینیٹر کا مزید کہنا تھا کہ یہ جانبدارانہ الیکشن کمیشن ہے۔ یہ لوگ اپنے لیے سازگار ماحول کے انتظار میں ہیں۔ عدلیہ مخالف مہم سازی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اس کے لیے پارلیمنٹ کو استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پارلیمنٹ کی ہر بات سپریم ہے تو اس فیصلے کو بھی واپس لیا جائے جس سے حکومت کا تختہ الٹا گیا تھا۔ اس وقت ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے بھی رولنگ دی تھی تو وہ کیسے ختم ہوگئی۔ رات کو سپریم کورٹ نے سوموٹو لیا کیا اس وقت پارلیمنٹ سپریم نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ سب سے اوپر آئین ہے اور ریاست ایک جسم کی مانند ہے۔ ایک جانب سابق وزیراعظم عمران خان پر پر قاتلانہ حملہ ہوا لیکن وہ ملک میں موجود اور تکلیف کے باوجود عدلیہ کے احترام میں عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں دوسری جانب ایک اور سابق وزیراعظم ملک سے باہر بیٹھے ہوا ہے۔ عدلیہ کا احترام دونوں طرف سے ہونا چاہیے۔ عدلیہ کا حکم آپ کو ہر صورت ماننا پڑے گا، چیئرمین صاحب آپ آئین کے تحت چلیں اور ذات کے لیے قانون سازی اور پارلیمنٹ کا استعمال بند کیا جائے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ایوان کو ایوان رہنے دیں ورنہ پھر کوئی بات نہیں کرے گا۔ اپنے رویے میں تحمل اور برداشت پیدا کریں۔ پارلیمنٹ کا اختیار صدر کو دے دیا گیا ہے۔ اگر اپوزیشن بات نہیں سنتی تو یہ بل پھر بھی پاس ہو گا۔
اس موقع پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے وزیر قانون نے کہا کہ آپ دھمکی دے رہے ہیں۔
نیب آرڈیننس 1999 کے دفعہ 23 کے تحت 2022 کیلیے نیب سالانہ رپورٹ بھی سینیٹ میں پیش کی گئی جو شہادت اعوان نے پیش کی۔ سینیٹ میں نیب آرڈیننس کا معاملہ اور سپلیمنٹری ایجنڈا لانے پر اپوزیشن سینیٹرز اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے اور احتجاج کرتے ہوئے نامنظور نامنظور کے نعرے لگائے۔