پشاور: ماحولیاتی آلودگی اور کلائمٹ چینج جیسے بین الاقوامی خطرات سے نمٹنے کے لیے خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی جانب سے جاری سونامی ٹری پراجیکٹ اس سال مکمل ہوجائے گا جس میں ایک ارب پودے لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔
خیبر پختونخواہ میں جاری بلین ٹری سونامی پراجیکٹ میں جنوبی اضلاع بالخصوص ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں نے اپنے مطلوبہ اہداف سے بڑھ کے نتائج حاصل کیے ہیں۔ اب تک صوبے میں 60 کروڑ پودے لگانے کا ہدف کامیابی سے حاصل کیا جا چکا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں سیم و تھور سے متاثر زمینوں کو خاص طور پر اس پراجیکٹ کے لیے بروئے کار لایا گیا ہے۔ اس علاقے میں 7 ہزار ہیکٹر پر پودے لگائے جانے تھے لیکن اب تک 13 ہزار ہیکٹر زمین پر پودے لگائے جا چکے ہیں۔
مزید پڑھیں: دنیا کے طویل ترین درختوں کا کلون
سیکریٹری جنگلات و ماحولیات سید نذر حسین شاہ کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے تحت نہ صرف موسمی حالات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے بلکہ بے آب و گیاہ زمینوں کو بھی زرخیز بنایا جا رہا ہے۔
انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں سمیت صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی اضلاع میں بلین ٹری پراجیکٹ پر جاری کام کا جائز ہ لیا اور اہداف سے بڑھ کر نتائج حاصل کرنے پر اطمینان کا اظہار کیا۔
سیکریٹری جنگلات، ماحولیات و جنگلی حیات سید نذر حسین شاہ نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس سلسلہ میں پورے صوبے میں محکمہ جنگلات کی 57 ہزار کنال اراضی بھی مختلف قابضین سے واگزار کی جاچکی ہے جس میں7 ہزار 3 سو کنال زمین پنجاب کے ضلع بھکر میں تھی۔ یہ تمام سرکاری اراضی تھی جو تقریباً 20، 25 سال سے لوگوں کے زیر تسلط تھی۔
انہوں نے کہا کہ جغرافیائی و آب و ہوا کے لحاظ سے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک اور بنوں کے علاقے بہت سخت تصور کیے جاتے ہیں اور یہاں پر کامیاب اہداف کا حصول موسمی تبدیلیوں کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوگا۔
مزید پڑھیں: جنگلات کے قریب وقت گزارنا بے شمار فوائد کا باعث
سید نذر حسین شاہ کا مزید کہنا تھا کہ بلین ٹری سونامی پروگرام صوبائی حکومت کا ہے اور سنہ 2015 جنوری سے اس پروگرام کا آغاز کیا گیا۔ ’اللہ کے فضل سے ابھی تک ہم 600 ملین پودے لگانے کا ہدف کامیابی سے پورا کر چکے ہیں‘۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے سال کی جو شجر کاری تھی اس کی شرح 86 فیصد تھی۔ ’اس سال خشک سالی بہت زیادہ تھی۔ 5 ماہ تک صوبے میں بارشیں نہیں ہوئیں اس وجہ سے اس سال شاید ہمارے پودوں کی بقا کی شرح پچھلے سال کی نسبت اس طرح نہ ہو۔‘
نذر حسین شاہ نے بتایا کہ خصوصاً ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن اور بنوں ڈویژن میں وہ زمینیں جو سیم و تھور زدہ تھیں یا خشک سالی کے باعث ایسی زمینیں جن پر زراعت کا امکان نہیں تھا، ایسی جگہوں کو ان پودوں کے لیے مختص کیا گیا جن کی نشوونما وہاں کی مٹی کے لحاظ سے مناسب تھی۔ ایسے مقامات پر اسی لحاظ سے وہاں مختلف اقسام کے پودے لگائے گئے۔
سیکریٹری جنگلات کا کہنا تھا کہ رواں برس دسمبر میں یہ پروجیکٹ مکمل ہوجائے گا۔ یہ دنیا کا تیز رفتار ترین منصوبہ ہے اور پوری دنیا میں 3 سال کے عرصے میں کسی بھی ملک نے شجر کاری کا اتنا بڑا ہدف حاصل نہیں کیا۔
نذر حسین نے مزید بتایا کہ پورے ملک میں 5 فیصد علاقہ محکمہ جنگلات کے پاس ہے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں اس کا 20.3 فیصد ہے۔ سب سے زیادہ جنگلات صوبہ خیبر پختونخواہ میں ہی ہیں۔
انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ سب سے زیادہ درختوں کی کٹائی خیبر پختونخواہ میں ہی ہوئی۔ ایک تحقیق کے مطابق اس کٹائی کا 85 فیصد سے زائد حصہ ایندھن کی ضرورت کو پورا کرنے میں صرف کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت اس پر بھی کام کر رہی ہے۔ سرکاری اراضی یا مقامی سطح پر لوگوں کے تعاون سے ان کی زمین پر درختوں کی آباد کاری کا منصوبہ بھی زیر غور ہے تاکہ عوام کی ایندھن کی ضرورت کے ساتھ ساتھ جانوروں کے چارے کی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں۔ محکمہ جنگلی حیات بھی ان تمام سرگرمیوں میں برابر کا شریک ہے۔
مزید پڑھیں: سری لنکا میں آسمان سے درختوں کی بارش
انہوں نے بتایا کہ لوگ 100 سال قدیم درخت کاٹ کر اپنی ایندھن کی ضرورت پوری کر رہے ہیں۔
سیکریٹری جنگلات نے بتایا کہ گزشتہ 20 برس سے موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلوں کی وجہ سے توازن میں بگاڑ آچکا تھا۔ خیبر پختونخواہ کے جنوبی اضلاع میں ان موسمیاتی تبدیلیوں کا بہت گہرا اثر ہوا اور یہاں کے درجہ حرارت میں 1 سے 2 ڈگری تک اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اگلے 20 سال میں درجہ حرارت میں 2 ڈگری مزید اضافہ ہوجائے گا جس کی وجہ سے لوگ بڑے پیمانے پر مالا کنڈ ڈویژن اور ہزارہ ڈویژن کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
البتہ انہوں نے امید ظاہر کی کہ بڑے پیمانے پر شجر کاری کا یہ منصوبہ درجہ حرارت کو مستحکم رکھنے میں مدد دے گا۔
سیکریٹری جنگلات نذر حسین شاہ کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کی وجہ سے جنگلی حیات کی آبادی میں بھی اضافہ ہوگا۔ آج سے 35 سال قبل ان علاقوں سے جنگلات کی کمی اور پناہ گاہیں ختم ہونے کے باعث ہگ ڈیر (ہرن کی ایک قسم) ناپید ہوچکا تھا۔ تاہم اس منصوبے اور جنگلات کی تعداد میں اضافے کے باعث مختلف اقسام کی جنگلی حیات دوبارہ سے ان علاقوں کا رخ کر رہی ہے۔