پلاسٹک کرہ زمین کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے کیونکہ پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک بڑے پیمانے پر استعمال کے باعث زمین پر اسی حالت میں رہ کر زمین کو گندگی وغلاظت کا ڈھیر بنا چکا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کرنے پر زور دیا جارہا ہے وہیں پلاسٹک کی متبادل پیکجنگ اشیا بنانے پر بھی کام جاری ہے۔
ایسی ہی ایک کوشش میکسیکو کی ایک سائنس دان سینڈرا اورٹز نے بھی کی ہے جنہوں نے ببول / کیکر کے پتوں سے متبادل پلاسٹک تیار کیا ہے۔ سینڈرا کا کہنا ہے کہ یہ پلاسٹک بائیو ڈی گریڈ ایبل یعنی زمین میں تلف ہوجانے والا، غیر زہریلا اور کھانے کے قابل ہے۔
اس پلاسٹک کو بنانے کے لیے سینڈرا نے ببول کے پتوں کو کاٹ کر ان کا جوس نکالا اور ان میں غیر نقصان دہ کیمیکلز کی آمیزش کی، اس کے بعد اسے ایک سپاٹ سطح پر پھیلا دیا، خشک ہونے کے بعد یہ محلول ایک پیکجنگ کی شکل اختیار کرگیا۔
یہ پلاسٹک زمین میں 1 ماہ میں تلف ہوسکتا ہے جبکہ صرف چند دن میں پانی میں حل ہوسکتا ہے۔ اس دوران اگر اسے جانور یا پرندے کھالیں تو یہ روایتی پلاسٹک کے برعکس ان کے لیے نقصان دہ بھی نہیں ہوگا۔
سینڈرا کے مطابق اسے مختلف رنگوں اور سائز میں بنایا جاسکتا ہے جبکہ اس کی موٹائی میں بھی کمی یا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اس پلاسٹک کو بنانے کے لیے سینڈرا کو 10 روز لگے تاہم ان کا کہنا ہے کہ اگر اسے کمرشل بنیادوں پر فیکٹری میں تیار کیا جائے تو یہ اس سے بھی کم مدت میں تیار ہوسکتا ہے۔
ببول کے جس پودے سے یہ پلاسٹک بنایا گیا ہے وہ میکسیکو کا مقامی پودا ہے اور میکسیکو میں اس پودے کی 300 اقسام پائی جاتی ہیں۔ سینڈرا مختلف اقسام پر ریسرچ کر رہی ہیں کہ کون سی قسم پلاسٹک بنانے کے لیے زیادہ موزوں ہوسکتی ہے۔