کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں محصور پاکستانی طلبہ کے والد کا بیان سامنے آگیا۔
کرغز طلبہ نے غیرملکی طلبا و طالبات پر حملے کیے اور سوشل میڈیا پر بھی حملوں کے لیے اکسایا گیا، ہاسٹل میں لڑکوں اور لڑکیوں پر تشدد بھی کیا گیا۔
بشکیک میں 13 مئی کو بودیونی کے ہاسٹل میں مقامی اور غیرملکی طلبہ میں لڑائی ہوئی تھی، جھگڑے میں ملوث 3 غیر ملکیوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔
کرغز میڈیا کے مطابق 17مئی کی شام چوئی کرمنجان دتکا کے علاقے میں مقامیوں نے احتجاج کیا، مقامی افراد نے جھگڑے میں ملوث غیرملکیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
مقامی میڈیا کے مطابق حراست میں لیے گئے غیرملکیوں نے بعد میں معافی بھی مانگی لیکن مظاہرین نے منتشر ہونے سے انکار کیا اور وہ مزید تعداد میں جمع ہوگئے جس کے بعد یہ پرتشدد واقعہ پیش آیا جس میں کئی پاکستانیوں کی زخمی ہونے کی اطلات بھی ہے۔
بشکیک میں محصور طالب علم یاسر سٹھیو کے والد نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ہمارے دو بھتیجے یاسر اور آصف وہاں میڈیکل سال دوئم میں پڑ رہے ہیں، بقول ان کے بشکیک میں 14 ہزار لڑکے لڑکیاں زیر تعلیم ہیں۔
یاسر کے والد نے بتایا کہ مسئلہ وہاں کے مقامی طالب علموں اور مصر کے طالبعلموں میں ہوا تھا، کل رات کچھ لوگوں نے پاکستانی طالب علموں کے ہاسٹل پرحملہ کیا، حملے میں کچھ پاکستانی طالب علم زخمی ہوئے ہیں۔
یاسر سٹھیو کے والد نے مزید کہا کہ بشکیک میں پاکستانی طالب علم پاکستانی سفارتخانے گئے اس کے دروازے بند تھے، سفارتخانے کے گارڈ نے کہا آپ اپنی کمپلین سفارتخانے کی ویب سائیڈ پر درج کروائیں۔
دوسری جانب الٰہ آباد کے نواحی گاؤں گہلن ہٹھاڑ کی رہائشی طالبہ عائشہ وکیل نے بھی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے، عائشہ نے کہا کہ ہم اپنے کمروں میں محصور ہیں، یہاں خوف کی فضا ہے۔
طالبہ عائشہ وکیل نے کہا کہ حکومت پاکستان جلد ایکشن لے، ہماری وطن واپسی کا انتظام کیا جائے، ضلع قصور سے 20 سے 25 طلبہ وطالبات یہاں پڑھ رہے ہیں، یہاں زیر تعلیم پاکستانی طلبا کو مقامی لوگوں نے تشدد کا نشانہ بیانا ہے، یہاں حالات کنٹرول میں نہیں، ہمیں سیکیورٹی مہیا نہیں کی جارہی۔