مولوی ذکاءُ اللہ کی کتاب آئینِ قیصری میں لکھا ہے کہ "پہلے لوگ پیٹ کے خلل کا علاج کرنے کے لیے چورن و کالا نمک و سکنجبین گھروں میں رکھتے تھے۔” یہ کتاب 1904ء کی ہے، یعنی سو سال پہلے کی۔ اس میں نظامِ ہضم کی عام شکایت کا حل جہاں چورن اور سکنجبین کو بتایا ہے، وہیں کالے نمک کا ذکر بھی کیا ہے جو آج بھی عام استعمال ہوتا ہے اور یہاں ہم اسی مرکب کو اپنا موضوع بنا رہے ہیں۔
آئینِ قیصری کی مذکورہ سطر سے تو واضح ہے کہ شکایاتِ معدہ میں کالے نمک کو نافع تصوّر کیا جاتا تھا، مگر اس حوالے سے کوئی ٹھوس اور جامع سائنسی تحقیق نہیں ہے کہ یہ صحّت کے لیے کتنا مفید ہے، اس کے باوجود پاک و ہند میں آج بھی لوگ اسے نظامِ ہضم کی عام شکایات دور کرنے کے لیے ٹوٹکے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
ہمالیائی نمک، سلیمانی نمک، کالا لونڑ، یہ سب اسی کرشمۂ قدرت کے نام ہیں۔ صدیوں سے حکیم و طبیب امراضِ معدہ میں اسی مرکّب پر بھروسا کرتے آئے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ یہ نمک یہاں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں میں پایا جاتا ہے، لیکن اسے مانگ پوری کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر مصنوعی طریقے سے بھی بنایا جاتا ہے۔ یہ کام بھٹیوں میں انجام پاتا ہے جہاں عام نمک میں دوسرے اجزا ملا کر یہ مرکّب تیّار ہوتا ہے۔
یہ عام نمک (سوڈیم کلورائیڈ) ہی ہوتا ہے، لیکن اس میں چند اجزا قدرتی طور پر شامل ہوجاتے ہیں جس سے اس کی رنگت گلابی مائل خاکستری ہوجاتی ہے۔
کالے نمک کا رنگ اور اس کی خاص بُو کا سبب اس میں موجود آئرن سلفائیڈ بھی ہوتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہی کیمیائی مرکّب انڈوں اور دودھ کے خراب ہوجانے پر ان سے آنے والی بدبُو کا سبب بھی ہے، لیکن نمک کے ساتھ یہ مختلف "سلوک” کرتا ہے۔
آج جدید طرزِ علاج اور ادویہ کے استعمال کے سبب کالا نمک کچن میں یا پیس کر اس کی پڑیا تو کوئی اپنی جیب میں نہیں رکھتا، لیکن صدیوں سے یہ مرکّب بدہضمی، تیزابیت، سینے کی جلن، گیس وغیرہ سے نجات دلانے کے لیے استعمال ہوتا آیا ہے۔
بہت زیادہ چکنائی والی چیزیں کھانے کی صورت میں پیدا ہونے والی معدے کی شکایت کو دور کرنا ہو تو چٹکی بھر نمک پانی کے ساتھ پی جائیں۔ اس میں موجود معدنیات معدے کی اس گڑبڑ سے نجات دلا دیں گی۔
یہ نمک کھانے کو ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے اور کہتے ہیں کہ اس سے کولیسٹرول اور شوگر لیول کنٹرول ہوتا ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نمک سے پٹّھوں کے اکڑنے کی شکایت رفع ہوسکتی ہے۔ اس کی وجہ کالے نمک میں موجود پوٹاشیم ہے۔
بعض لوگ اسے جوڑوں کے درد میں مرہم کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور خواتین میں ہسٹریا کی بیماری کا علاج بھی اسی سے کیا جاتا ہے، لیکن اس کے یہ فوائد کسی سائنسی تحقیق سے ثابت نہیں ہیں۔
کالے نمک کا روزانہ استعمال صحّت کے لیے مضر ثابت ہو سکتا ہے، کیوں کہ اس میں آئیو ڈین نہیں ہوتا۔ اس میں موجود آئرن سلفائیڈ بھی مضر اثرات مرتب کرسکتا ہے، لیکن نمک کا ایک حصّہ ہونے کی وجہ سے یہ کنٹرول میں رہتا ہے۔ تاہم زیادہ استعمال کی صورت میں نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
کالے نمک کو حسبِ ضرورت گیس اور تیزابیت سے نجات حاصل کرنے کے لیے مخصوص مقدار میں استعمال ضرور کریں، لیکن اس حوالے سے احتیاط ضروری ہے۔
اس قدرتی مرکّب کو کبھی کبھار مرغن غذاؤں اور مسالے دار کھانوں میں عام نمک کے متبادل کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، جو پکوان کو ایک نئی خوش بُو اور ذائقہ دے گا، لیکن اسے مستقل استعمال نہیں کیا جاسکتا۔