دنیا کی نایاب نابینا ڈولفن سندھ کے باسیوں کے لیے ایک پرسرار اور دیومالائی حیثیت رکھتی ہے، سندھ وائلڈ لائف کا محکمہ سردیوں میں پانی کی کمی پر انھیں محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا کام بخوبی انجام دیتا ہے۔
پاکستان میں ڈولفن کا پہلا باقاعدہ سروے 1974 میں سوئٹزرلینڈ کے پروفیسر جورجیو پیلری نے کیا تھا اور 150 ڈولفن شمار کی تھیں، اس کے بعد ڈولفن کے لیے آبی تحفظ گاہ قائم کی گئی تھی۔
صرف پاکستان میں
میٹھے پانی میں 4 اقسام کی ڈولفن پائی جاتی رہی ہے، جن میں سے اب 3 اقسام کی ڈولفنیں ہی دیکھی جا سکتی ہیں۔ نابینا ڈولفن ایک زمانے تک سندھ کے علاوہ پنجاب کے کچھ نہری علاقوں میں بھی پائی جاتی تھی مگر اب یہ صرف سندھ کے بالائی علاقوں سکھر اور گدو بیراج تک محدود ہو چکی ہے۔
پاکستانی ڈولفن دنیا کے کسی اور علاقے میں نہیں پائی جاتی، نابینا یا بلائنڈ ڈولفن کو ایک عرصے تک مقامی مچھیرے شکار کر کے اس کی چربی استعمال کرتے تھے، جس سے اس کی نسل کو شدید خطرات لاحق ہو گئے تھے، مگر اب اس کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو چکا ہے۔
بینائی جانے کی وجہ؟
دریائے سندھ میں گدو اور سکھر بیراج میں پائی جانے والی نابینا ڈولفن کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ کے گدلے پانی کی وجہ سے ان کی بینائی متاثر ہو جاتی ہے، جس سے یہ اندھی ہو جاتی ہیں۔ نابینا ڈولفن کو سندھی زبان میں بھلن بھی کہا جاتا ہے اور سندھ کا محکمہ جنگلی حیات اس نایاب آبی حیات کے تحفظ کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔
ڈولفن کو موت سے کیسے بچایا جاتا ہے؟
عدنان حامد نے بتایا کہ انڈس ڈولفن کے سر پر بلو ہول ہوتا ہے جسے وہ اس وقت کھولتی ہے جب وہ مشکل میں پھنس جائے۔ بلو ہول کھل جانے سے پانی اس کے جسم میں پھیپھڑوں تک چلا جاتا ہے، جس سے وہ فوراً ہی دم توڑ دیتی ہے۔ ’’اس لیے ہمیں ڈولفن کے بلو ہول کھولنے سے پہلے ہی اسے ریسکیو کرنا ہوتا ہے اور یہ 60 سے 80 سیکنڈ کا دورانیہ ہوتا ہے، جس میں ہمیں اسے بچانا ہوتا ہے۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ ’’انڈس ڈولفن کو ریسکیو کرنا بڑا مہارت طلب کام ہے، جال کے ذریعے ڈولفن کو کم پانی میں لا کر نکالا جاتا ہے، اگر پانی 4 فٹ سے زیادہ ہو تو اس کے بچنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔‘‘
انڈس ڈولفنوں کی تعداد اب کتنی ہے؟
سندھ وائلڈ لائف کے کنزرویٹر محمد عدنان کا کہنا ہے کہ سندھ میں نابینا ڈولفن کی تعداد 2009 میں 900 کے لگ بھگ تھی، جو اب 1900 ہو گئی ہے۔ یہ ڈولفن سردیوں کے موسم میں دریا سندھ میں پانی کی کمی کی وجہ سے اکثر پانی کے بہاؤ میں تیرتی ہوئی چھوٹی نہروں میں جا کر جھاڑیوں میں پھنس جاتی ہیں، جنھیں ریسکیو کر کے واپس سکھر بیراج لایا جاتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں چند سال قبل تک اس کی نسل کو شدید خطرات تھے، مگر مختلف تنظیموں اور سرکاری سطح پر عوام میں شعور پیدا ہونے اور اس کے شکار کی روک تھام سے اب ان کی تعداد میں ہر سال مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
واضح رہے کہ دنیا کی نایاب نابینا ڈولفن پاکستان کے لیے قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے، اس کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔