نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اورمعلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ڈریٹن ان کے تعاقب میں کیمپ گراؤنڈ پہنچا تھا، لیکن اس نے وہاں سے کوئی ایک یا دو میل کے فاصلے پر نیچے ایک جگہ اپنی گاڑی کھڑی کی، اور پھر پیدل ہی پہاڑ چڑھنے لگا، جب وہ کیمپ گراؤنڈ پہنچا تو پسینے سے شرابور تھا۔ اس نے جنگل والے علاقے میں درختوں کے درمیان خود کو ایک جگہ چھپایا اور انتظار کرنے لگا، اس نے دیکھا کہ کچھ ہی دیر بعد سبھی مرد گاڑی میں بیٹھے کر چلے گئے، تو وہ بہت خوش ہوا اور سوچنے لگا کہ کیا جادوئی گولہ ان خیموں میں سے کسی میں ہوگا۔ جب مائری بھی چلی گئی اور وہاں فیونا اکیلی رہ گئی تو ڈریٹن کود کر باہر نکل آیا۔ اس نے فوراً فیصلہ کیا کہ اب فیونا کی حفاظت کے لیے کوئی نہیں ہے تو وہ کیمپ گراؤنڈ کے ایریا میں گھس کر اسے قابو کر سکتا ہے، لیکن پھر جادوگر پہلان کا حکم یاد آیا کہ اسے موقع کا انتظار کرنا ہے۔ اس نے کہا یہی موقع ہے، میں چھپ کر خیموں کے اندر گھسوں گا۔ اس نے دیکھا فیونا ایک چٹان پر بیٹھ کر کتاب پڑھنے لگی تھی، اور اس نے ڈریٹن کو کیمپ میں آتے نہیں دیکھا۔ اس نے جیب سے چاقو نکال کر خیموں میں سے ایک کے پچھلے حصے میں چادر کاٹ دی اور اندر گھس گیا۔ اس نے سلیپنگ بیگز اور کپڑوں کی تلاشی لی، لیکن جادوئی گولہ یا قدیم کتابیں نہیں ملیں۔ وہ اُس خیمے سے باہر نکلا اور دوسری کی طرف چلا گیا اور ابھی چاقو سے کینوس کاٹنے ہی والا تھا کہ اس کی سماعت سے مائری کی آواز ٹکرائی: ’’فیونا، میں واپس آ گئی ہوں۔‘‘ ڈریٹن یہ سن کر جنھجھلایا، اور اس ڈر سے کہ پکڑا نہ جائے، فوراً وہاں سے کھسک گیا، اور جنگل میں اپنے ٹھکانے کی طرف واپس چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
’’بہت جلدی آ گئیں ممی، کیا ہوا؟‘‘ فیونا نے کتاب بند کر کے مسکراتے ہوئے کہا۔ مائری نے کہا کہ انھیں کچھ خاص نظر نہ آیا تو بے مطلب کی مٹر گشت مناسب نہ جانی۔ فیونا نے ممی سے کھانے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ اگر مرد حضرات واپسی میں اپنے ساتھ مچھلیاں لے کر آئے تو اس کے علاوہ روٹی، مکھن اور پھلیاں پکا کر مزے کا ڈنر ہو جائے گا۔ فیونا نے آس پاس کھانے کے سامان اور برتنوں پر نگاہ ڈالتے ہوئے کہا ممی، ہمارا وہ سیاہ پین کہاں ہے؟ مائری کا کہنا تھا کہ وہ شاید جونی اور جمی کے خیمے میں ہوگا۔ فیونا نے جیسے خیمے کے اندر گئی فوراً چیختی ہوئی واپس آ گئی: ’’ممی، کسی نے خیمہ پھاڑ کر اندر تباہی مچا رکھی ہے، سارا سامان بکھرا پڑا ہے۔‘‘
مائری کے منھ سے بھی حیرت بھری آواز نکلی اور دوڑ کر خیمے کی طرف بھاگیں۔ انھوں نے کینوس میں بنے کٹ کا جائزہ لیا اور سمجھ گئیں کہ اسے چاقو سے کاٹا گیا ہے۔ مائری نے پوچھا: ’’کیا تم کیمپ چھوڑ کر کہیں چلی گئی تھی؟‘‘ فیونا بولی: ’’نہیں ممی، میں یہاں بیٹھ کر کتاب پڑھ رہی تھی، ایک لمحے کے لیے بھی کہیں نہیں گئی۔‘‘
مائری نے تشویش کے ساتھ آس پاس کے علاقے کا جائزہ لیا، اور پھر کہا: ’’مجھے لگتا ہے کہ یہاں ڈریٹن آیا تھا، جب اس نے تمھیں اکیلے دیکھا تو خیمے کی تلاشی لی، اوہ باقی خیموں کو دیکھنا ہوگا، کہیں وہ اینگس کے خیمے میں نہ گیا ہو۔‘‘ مائری گھبراہٹ میں دوڑ کر انکل اینگس کے خیمے میں داخل ہوئیں، لیکن وہاں سب نارمل تھا۔ وہ دونوں جانتی تھیں کہ اینگس نے جادوئی گولہ برف رکھنے والے باکس میں چھپایا ہے، انھوں نے اسے وہاں دیکھ کر اطمینان کی سانس لی۔ تاہم مائری نے پریشانی کا اظہار کیا کہ ان کے آس پاس وہ شیطان ڈریٹن ابھی بھی موجود ہے۔ مائری کے دماغ پر گزشتہ رات والے اذیت ناک واقعے کا اثر ابھی بھی تازہ تھا۔ ایسے میں فیونا نے ان کے گرد بازو حمائل کر کے پیار سے کہا: ’’ممی، سب ٹھیک ہے، وہ سب جلد ہی لوٹ آئیں گے۔‘‘ اس کے بعد وہ کیمپ کے وسط میں آ گئیں۔ وہاں جلانے کے لیے لکڑیاں پہلے ہی سے پڑی ہوئی تھیں، فیونا نے ممی سے کہا کہ وہ ان لکڑیوں میں ابھی آگ بھڑکا دے گی، آپ کھانے کی تیاری کریں۔
۔۔۔۔۔۔
وہ رات کے کھانے کی تیاریوں میں لگی ہوئی تھیں کہ ایس یو وی آ کر کیمپ کے پاس رک گئی، جسے اینگس چلا رہے تھے۔ وہ مچھلی پکڑنے میں کامیاب ہو گئے تھے، اس لیے خوش تھے، لیکن مائری کے چہرے پر پریشانی کے آثار واضح تھے، اس لیے ان سے بھی نہ چھپ سکے۔
فیونا نے انھیں بتایا کہ ڈریٹن گھس آیا تھا اور ایک خیمے میں جادوئی گولے اور قدیم کتابوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ اینگس چونک اٹھے اور کہا ’’مجھے انھیں یہاں نہیں چھوڑنا چاہیے تھا، اس طرح آپ دونوں کی جان خطرے میں پڑ گئی تھی۔‘‘ جمی نے کہا کہ اب جب کہ ڈریٹن بھی یہاں ہے تو ہر ایک کو ہر وقت چوکس رہنا پڑے گا۔ مائری نے کہا ’’اب میں ٹھیک ہوں، مچھلی میرے پاس لاؤ تاکہ بھوننے کی تیاری کر لوں۔‘‘ جمی نے مائری کو بتایا کہ سالمن اور کچھ ٹراؤٹ مچھلیاں ہاتھ آئی ہیں۔ جمی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے دور کے مقابلے میں اب مچھلیاں پکڑنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ مائری نے اچانک کہا: ’’ہاں لیکن مجھے یقین ہے کہ مچھلی کا ذائقہ اب بھی ویسا ہی ہوگا جیسا کہ پہلے تھا۔‘‘ اور وہ سب ہنس دیے۔ مچھلی وہ پہلے ہی صاف کر کے لائے تھے، مائری نے ٹراؤٹ کو پین میں ڈال دیا اور اسے پتھروں پر کھلی آگ پر رکھ دیا۔ پھر پھلیوں کے چند ٹن کھولے اور پھلیاں ایک برتن میں ڈال کر پورٹیبل چولھے پر رکھ دیا۔ کچھ دیر بعد کھانا تیار تھا، انھوں نے مکھن لگی روٹی کے ساتھ ڈنر کیا۔ صرف کڑاہی ایسی تھی جسے دھونے کی ضرورت تھی، باقی سب چیزیں پلاسٹک اور کاغذ کی تھیں اس لیے ایک بڑے کوڑے دان میں پھینک دی گئیں۔ اس وقت کیمپ پر اندھیرا چھا چکا تھا اور اوپر آسمان میں تارے ٹمٹما رہے تھے۔