نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
فیونا نے پوچھا کہ یہ کب سے یہاں پڑا ہوا ہے؟ جیزے نے جواب دیا کہ بس آدھا گھنٹا ہی ہوا ہوگا۔ جیزے اس بات پر حیران ہو رہا تھا کہ ڈریٹن اسٹیلے نے آخر بالیاں کیوں پہنی ہوئی ہیں، بالیاں تو عورتیں پہنتی تھیں۔ اس نے اپنی زندگی میں کبھی کسی مرد کو بالیاں پہنے نہیں دیکھا تھا۔ فیونا نے مسکرا کر بتایا کہ اب دنیا بدل چکی ہے، مرد بھی بالیاں پہنتے ہیں اور کسی کسی کے ساتھ تو بالیاں اچھی لگتی ہیں لیکن اس ڈریٹن کے ساتھ بالکل نہیں، یہ تو ایک درندے کی طرح لگتا ہے۔
جب وہ سب چائے نوش کر رہے تھے تو ایسے میں ڈریٹن دھیرے دھیرے ہوش میں آ گیا۔ اسے سر میں درد محسوس ہونے لگا جہاں جیزے کی زبردست ٹھوکر لگی تھی۔ اس نے دیکھا کہ فیونا اور دوسرے لوگ بیٹھے چائے کے گھونٹ بھر رہے ہیں اور ان کے درمیان گپ شپ چل رہی ہے۔ وہ ڈریٹن سے بالکل غافل ہو چکے تھے، ایسے میں ڈریٹن کو محسوس ہوا کہ نشہ اترنے کے بعد اس کی طاقتیں واپس آ گئی ہیں۔ اس نے سوچا کہ اب یہاں سے فوراً نکل جانا چاہیے۔ اس نے جادو کے زور سے خود کو چھوٹا کر دیا، اور اتنا سکڑ گیا کہ رسیوں سے بہ آسانی نکل آیا۔ اس نے خود کو ایک چوہے کے سائز جتنا بنا دیا تھا، اس کے باوجود وہ ڈر ڈر کر دروازے کی طرف بڑھنے لگا اور بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتا رہا۔ دروازے پر پہنچ کر وہ اس کے نیچے آسانی سے رینگ کر باہر نکل گیا۔ عین اسی وقت جیفری اور اینگس اپنے سفر سے واپس پہنچے تھے، ڈریٹن فورا وہاں پڑی دودھ کی بوتل کے پیچھے چھپ گیا۔ وہ دونوں اسے نہ دیکھ سکے۔ جیسے وہ اندر چلے گئے ڈریٹن اپنے نارمل سائز میں آ گیا اور محل کی جانب سے تیز تیز قدموں سے چلنے لگا۔
جیفری اور اینگس بھی چائے کے ساتھ دیگر لوازمات سے لطف اندوز ہونے لگے۔ ایسے میں جیزے نے اینگس سے پیچھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ڈریٹن کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘
انکل اینگس نے بے اختیار مڑ کر دیکھا تو وہاں کسی کو نہ پایا۔ انھوں نے حیران ہو کر پوچھا: ’’آپ کس بارے میں پوچھ رہے ہیں؟ مجھے تو ڈریٹن نظر نہیں آیا۔‘‘
جیزے نے یہ سن کر پیچھے دیکھا اور اچھل پڑا۔ ’’ارے، ڈریٹن کہاں چلا گیا؟ میں نے تو اسے رسیوں کے ساتھ مضبوطبی سے باندھا تھا، اس نے کیسے چھڑایا خود کو؟‘‘ جیک نے کہا کہ اس نے تو دروازہ کھلنے کی آواز بھی نہیں سنی۔ فیونا نے کہا: ’’میں جانتی ہوں کہ اس نے یہ کیسے کیا، وہ سکڑ کر دروازے کے نیچے سے باہر گیا ہے۔‘‘
جونی نے اہم بات کی: ’’یہ بات تو صاف ہو گئی ہے کہ ڈریٹن جادوئی گولے اور کتابوں کے لیے اتنی بری طرح سے تڑپ رہا ہے کہ ان کے حصول کے لیے کوئی بھی غیر معقول کام کرنے سے نہیں کتراتا۔ اس لیے ہم اب اور بھی زیادہ احتیاط کرنی ہوگی اور دیگر قیمتی پتھروں کے حصول کو بھی تیز تر کرنا ہوگا۔‘‘
فیونا کرسی سے اٹھ کر جیفری کے پاس گئی اور سخت ناراضی والے لہجے میں اسے مخاطب کیا: ’’گلیشیئر میں ہماری ملاقات کرسٹل سے ہوئی تھی۔ یاد ہے نا آپ کو وہ۔ شکر ہے کہ اب وہ آزاد ہے لیکن آپ آخر کیسے اتنے طویل عرصے کے لیے اسے گلیشیئر کے اندر رہنے پر مجبور کر سکتے ہیں؟ وہ گلیشیئر تو ویسے بھی تقریباً ٹوٹنے والا تھا اور ایسا ہوتا تو کرسٹل آزاد ہو جاتی اور زمرد بھی کھو جاتا۔‘‘
جیفری یہ سن کر چونک اٹھا: ’’اوہ تو آپ کرسٹل سے ملے۔ مجھے افسوس ہے کہ اس بات کا مجھے خیال تک نہ آیا کہ وہ اس پر ناخوش ہوگی۔‘‘ اس نے اپنی بھوری آنکھیں فیونا پر جما کر کہا: ’’یہ بہت پرانی بات ہے، لیکن مجھے افسوس ہے اس پر اور میں معذرت خواہ ہوں اس کے لیے۔‘‘
جونی نے مداخلت کی اور کہا کہ جبران اور دانیال کو لانے کا وقت ہے تاکہ اگلے قیمتی پتھر کے لیے جایا جا سکے۔ اس کے بعد وہ مائری اور فیونا کو لے کر اینگس کے گھر سے نکل گیا۔ وہ جبران کے گھر پہنچے تو مائری نے شاہانہ اور بلال سے درخواست کی کہ وہ جبران اور دانیال کو اینگس کے ہاں کچھ دیر کے لیے لے جانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے مہمانوں کو چائے کی پیش کش کی لیکن وہ جلدی میں تھے، جبران اور دانیال کو لے کر واپس ہو لیے۔ بلال نے جونی سے کہا کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ آئے تاکہ شکار پر نکلیں۔ بلال نے کہا کہ وہ انھیں بندوق کے ساتھ بطخ کا شکار سکھائیں گے، اور ہو سکتا ہے کہ ہرن، خرگوش اور تیتر بھی ہاتھ آ سکیں۔ جونی نے بھی جلدی میں ہامی بھر لی۔
(جاری ہے….)
Comments