منگل, ستمبر 17, 2024
اشتہار

دو سو چھ ویں قسط: پُراسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

اشتہار

حیرت انگیز

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
"جن ایک ایسے آدمی کو جانتے ہیں جو سبز پہننا پسند کرتا ہے؟ یہ مزاحیہ ہے، ہے نا؟” حکیم ہنستے ہنستے اپنے اطراف میں ریت پر گھومنے لگا۔ ٹرین کی گرج کی طرح ایک شور نے زمین کو ہلا دیا۔ "اوہ۔ میرے جانے کا وقت۔” وہ جانے لگا لیکن ہچکچاتا رہا۔ تیزی سے بات کرتے ہوئے، اس نے کہا، "میں جانے سے پہلے، میرے پاس آپ کے لیے کچھ ہے۔ یہاں، کالم. چراغ تمہارا ہے۔ اس کی اچھی طرح حفاظت کریں اور اس کے اندر کسی جن کو نہ پھنسائیں۔ فیونا، آپ کو اور ایلسپیٹ کو اپنے تحائف کا انتظار کرنا پڑے گا۔ مجھے جانا ہوگا۔ میں آپ کو چھپانے کا مشورہ دیتا ہوں۔ ابھی!” جن غائب ہو گیا۔
اچانک چراغ والا جن اچھل کر بولا ’’میرے جانے کا سمے آ گیا، میں تو نکل رہا ہوں، اور تمھیں بھی مشورہ ہے کہ کہیں چھپ جاؤ۔‘‘ ابھی وہ تینوں اس کی بات سمجھے بھی نہیں تھی، ایک طرف تو حکیم غائب ہو گیا، دوسری طرف انھوں نے اپنی طرف ایک بھورے رنگ کی دیوار تیزی سے بڑھتی دیکھی، جس میں سے گرج کی آواز آ رہی تھی۔ جبران چلایا: ’’یہ ریت کا طوفان ہے، بھاگو!‘‘ اور وہ تینوں دوڑے پڑے۔
انھیں چھپنے کے لیے قلعے کا ایک گوشہ ملا، جہاں بیٹھ کر انھوں نے خود کو جادوئی قالین سے ڈھانپ لیا۔ قالین کے نیچے وہ ریت کے طوفان کی دہشت ناک آواز سنتے رہے۔ ریت کے ذرے انھیں ایسے چبھ رہے تھے جیسے مکھیوں کے غول ڈنک مار رہا ہو۔ شور اتنا تھا کہ انھیں کان بہرے ہونے کا احساس ہونے لگا اور ہوا اتنی گاڑھی ہو چکی تھی کہ ان کے لیے سانس لینا مشکل ہو گیا۔ جب انھوں نے سانس لینے کی جدوجہد کی تو پھیپھڑے درد سے پھٹنے لگے۔
اچانک ان کے ہاتھوں سے قالین بھی چھوٹ گیا۔ فیونا بہ مشکل بول پائی کہ یہ تیسرا پھندا ہے۔ ریت کے طوفان نے قالین کو اڑایا اور وہ پل بھر میں غائب ہو گیا۔ اور پھر ان کو بھی ریت نے ڈھانپنا شروع کر دیا۔ فیونا تکلیف کے عالم میں سانس روک روک بولی: ’’ہمارا دم گھٹنے والا ہے۔ ریت ہمیں ڈھانپ لے گی اور ہم سانس نہیں لے پائیں گے۔‘‘ کچھ ہی دیر میں جبران اور دانیال کے حواس سے ان کا ساتھ چھوڑ دیا، وہ تینوں ایک دوسرے سے لپٹے بیٹھے تھے، اور اس عالم میں تین گھنٹے گزر گئے۔ ریت ان کی گردنوں تک جمع ہو گئی تھی، اور وہ اس میں دفن ہونے جا رہے تھے۔ طوفان تھمنے لگا تو دانیال کی ڈوبتی آواز آئی: ’’میں اپنا ہاتھ نہیں ہلا پا رہا ہوں۔‘‘
ایسے میں فیونا کو یاد آیا کہ وہ موسم بدل سکتی ہے، اس نے جلدی سے بارش سے بھرے بادلوں کے بارے میں سوچا۔ اور ذرا دیر میں صحرا میں بارش شروع ہو گئی، ان تینوں کو اپنے چہروں پر، جو اُس وقت ریتے باہر تھے، چھینٹے پڑنے کا احساس ہوا۔ اگلے ایک گھنٹے تک بارش برسنے کے بعد ہوا میں ریت کے طوفان کے اثرات ختم ہو گئے، اور جگہ جگہ ریت میں پانی کی چھوٹی چھوٹی نالیاں سی بن گئیں۔ دانیال نے دیکھا کہ کچھ ہی فاصلے پر جادوئی قالین بھی زمین پر گرا پڑا تھا۔
کچھ ریت پانی میں بہہ گئی تھی اور باقی کو انھوں نے ہٹایا اور باہر نکلے، انھوں نے اپنے سروں پر قوس قزح کو دیکھا، تو ان کے موڈ کچھ بہتر ہوئے۔ ایسے میں چراغ والا جن پھر نمودار ہو گیا۔ اس نے تالی بجائی اور قالین تین گنا بڑا ہو گیا، اور اس پر ماربل کی خوب صورت میز نمودار ہو گئی جس کے پائے صندل کی لکڑی کے تھے۔ انھوں نے دیکھا کہ میز پر انواع و اقسام کے کھانے سجے ہوئے تھے۔ قالین پر چار عدد خوب صورت اور نرم رنگین تکیے بھی اب نظر آ رہے تھے۔ حکیم نے کہا: ’’یہ چار اس لیے ہیں کہ اب میں بھی تم لوگوں کے ساتھ اس پر سفر کروں گا۔‘‘ اس نے بتایا ’’چاندی کے ان تین خوب صورت جگوں میں انگور، انار لیموں کا رس ہے۔ ان پلیٹوں میں انگور، کھجور، خربوزے، کیلے اور کیوی کے پھل چنے گئے ہیں جنھیں کاٹا گیا ہے۔ اور ان پلیٹوں میں چکن، گائے کا بھنا گوشت، مسالے دار چٹنی، میمنے کے کباب، بادام اور پائن والے چاول، اور چپاتیاں ہیں۔ اور ہاں یہ والی ڈش ملوخیہ کہلاتی ہے، یہ چکن اور چاول کے ساتھ پالک کا اسٹو ہے، اور بھی بہت کچھ ہے۔‘‘
اتنی چیزیں دیکھ کر ان کی بھوک چمک اٹھی، اور چہروں پر خوشی کے اثرات اور گہرے ہو گئے۔
جاری ہے…

Comments

اہم ترین

رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں گزشتہ 20 برسوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، ان دنوں اے آر وائی نیوز سے بہ طور سینئر صحافی منسلک ہیں۔

مزید خبریں