ہندوستان کی تاریخ پر کتابیں پڑھی جائیں تو ان میں حالات و واقعات کے بیان کے ساتھ ہمیں اِی مارسڈن کی انگریزی کتاب’’ ہسٹری آف انڈیا‘‘ کے بکثرت حوالے ملتے ہیں۔ اِی مارسڈن ایک انگریز بیورو کریٹ تھا، جو علمی و تحقیقی کام کے ماہر اور فارسی کے ساتھ مقامی زبانوں سے بھی واقف تھا۔ اس کی کتاب میں قدیم ہندوستان کا جغرافیہ، اقوام، رسم و رواج، مذاہب، ریاستوں کا عروج و زوال غرض کہ تقریباً تمام اہم واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں اور اس کی کتاب کو مستند قرار دیا جاتا ہے۔ ای مارسڈن کی کتاب کے اردو زبان میں کئی تراجم ملتے ہیں۔
ای مارسڈن کی کتاب ’’تاریخِ ہند‘‘ سے یہ اقتباس اس خطّے کی اقوام اور جغرافیہ سے متعلق نہایت معلومات افزا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
جب آریائی لوگ ہندوستان کی سرسبز اور زرخیز وادیوں میں آباد ہو گئے، تو برہمنوں کو، جن کا ایک علیحدہ فرقہ یا گروہ بن چکا تھا، پڑھنے لکھنے کے لیے بہت وقت ملنے لگا، کیونکہ اب وہ نہ لڑائی میں جاتے تھے، نہ زمین بونے جوتنے سے سروکار رکھتے تھے۔
ان کو جن چیزوں کی ضرورت ہوتی تھی وہ سب اور فرقوں سے بہم پہنچ جاتی تھیں۔ پوجا کے بعد سارا دن اپنا تھا۔ انہیں وید حفظ کرنا پڑتا تھا اور اس میں بے شک بہت وقت خرچ ہوتا تھا، پھر بھی اتنی فرصت ملتی تھی کہ انہوں نے نظمیں لکھیں، قانون بنائے اور علوم و فنون کا مطالعہ کیا۔ اس زمانے کے ہندوؤں نے جب رات کے وقت آسمان کی طرف آنکھ اٹھائی اور چاند کی حرکات پر دھیان دیا تو علم ہیئت کی بنیاد ڈال دی۔ ان 28 نکھشتروں (گزر گاہوں) کے نام رکھے، جن میں سے چاند وقتاً فوقتاً گزرتا ہے۔ انہوں نے ان بارہ راسوں (برجوں) کی تشخیص کی، جن میں سے کسی ایک میں چاند پوری نمائش کے دن (بدر کی حالت میں) ہوتا ہے اور ان کے نام رکھے۔ اس قدیم زمانے کے ہندوؤں نے زندگی کی ماہیئت، ظاہری دنیا کی اصلیت، خدا، انسان، روح، ماضی اور مستقبل، ہر شے پر نہایت غور و فکر کے ساتھ مدت دراز تک عقل لڑائی، جو کچھ انہیں معلوم ہوا اور جو کچھ ان کی سمجھ میں آیا لکھتے گئے۔
آخر کار ان بحث مباحثوں کے لحاظ سے ان کے چھ مت قرار پائے۔ مت کے معنی مذہب، خواہ انہیں چھ مذہب کہہ لو، خواہ فلسفے کی چھ شاخیں مان لو، بات ایک ہی ہے۔ ہاں اتنا یاد رکھنا چاہیے کہ ہر ایک مت کا بانی جدا رِشی (فاضل، صوفی) تھا۔ سانگھ کا بانی کپل تھا۔ اس کا قول تھا کہ ہم اسی شے کا یقین کر سکتے ہیں جس کو خود محسوس یا ثابت کر سکتے ہوں یا کوئی اور شخص محسوس یا ثابت کر سکتا ہو۔ یہ وید کی تعلیم سے منحرف تھا۔ دوسرا مت یوگ کہلاتا ہے۔ اس کا بانی تپنجلی تھا جو 200 قبل مسیح کے قریب گزرا ہے۔ اس کا عقیدہ یہ تھا کہ سب کا آدکارن (سبب پیدا کرنے والی) ایک مطلق طاقت ہے جس نے کل کائنات کو بنایا ہے۔ روح انسان کی نجات کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انسان خدا کا دھیان کرے اور مادے کی قید سے چھوٹ کر فنا اس طاقت میں ہو جائے۔ تیسرے مت کا بانی گوتم رشی ہوا ہے۔ اس کا نام نیائے یا منطق ہے۔ یہ دلیل دینا اور دلیل کے وسیلے سے چیزوں کی حقیقت اور ماہیئت کا دریافت کرنا سکھاتا ہے۔ گوتم کی تعلیم یہ ہے کہ تمام چیزیں خدا کی پیدا کی ہوئی ہیں۔ چوتھا مت ویسے شک کہلاتا ہے۔ اس کا بانی کناد تھا۔ کناد کہتا ہے کہ دنیا ان چھوٹے چھوٹے اجزا سے بنی ہے۔ باقی کے دونوں مت ویدانت کہلاتے ہیں، کیونکہ دونوں کا سلسلہ وید سے شروع ہوتا ہے۔ ان میں سے پہلے کا نام پورب میمانسا ہے۔ اس کا بانی جمینی ہے۔ یہ برہمنوں کے اصول پر چلتا ہے۔ اوتر میمانسایا باد رائن بیاس کہتا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ خدا کی بندگی کرے۔ روح اور مادہ اور کل کائنات اسی کی ذات کا پرتو اور ظہور ہے۔ تمام چیزیں اسی سے ہی تخلیق کردہ ہیں۔ بادرائن کہتا ہے کہ انسان کی روح اس ذات مطلق کا ایک جزو ہے۔ جس طرح چنگاری آگ کا ایک جزو ہے۔ روحیں ایک جسم سے دوسرے میں جاتی ہیں۔ آہستہ آہستہ علم اور نیکی کی طرف ترقی کرتی ہیں اور جب علم اور عمل درجہ کمال کو پہنچ جاتے ہیں تو خدا کے ساتھ قرب اور یگانگت نصیب ہوتی ہے۔ برہمن دوسروں کے پیشوا اور معلم تھے۔ اس لیے انہوں نے سب فرقوں کے فرائض مقرر کیے اور ان کے لیے دستور العمل بنا دیے۔
گرہست یا خانہ داری کے فرائض اور ان کے ادا کرنے کی ترکیب اس شرح اور تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے کہ ہر ایک شخص دیکھ سکتا ہے کہ میرا کیا دھرم ہے اور کس طرح اس پر چلنا لازم ہے۔ اور مجرموں اور ’’گنہگاروں‘‘ کی سزا کے قانون بھی مقرر کیے ہیں۔ یہ کل آئین و قوانین سوتروں کی شکل میں بیان کیے گئے ہیں جو حفظ کیے جاتے تھے۔ منوجی کا مجموعہ قوانین راجاؤں، مہاراجوں کی ہدایت کے لیے ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ کس طرح حکومت کرنی اور مجرموں کو سزا دینی چاہیے۔ منوجی کا ضابطہ اسی زمانے میں سوتروں کی شکل میں مرتب ہوا تھا۔