راجندر سنگھ بیدی سے لاہور میں اپنی ایک ملاقات کا ذکر سعادت حسن منٹو نے بھی کیا ہے جو پرانی انار کلی کے اس کمرے میں ہوئی جہاں باری علیگ اور حسن عباس رہتے تھے۔
"گنجے فرشتے” میں منٹو نے باری علیگ کے خاکے میں لکھا ہے: "راجندر سنگھ بیدی، روسی ناول نویس شولوخوف کے "اینڈ کوائٹ فلوز دی ڈون” کے متعلق بات چیت کر رہا تھا۔ یہ ناول ہم میں سے کسی نے بھی نہیں پڑھا تھا۔ لیکن بیدی کچھ اس انداز سے گفتگو کر رہا تھا کہ مجھے خواہ مخواہ اس میں شریک ہونا اور یہ ظاہر کرنا پڑا کہ ناول میرا پڑھا ہوا ہے۔ جب میں نے اس کا اظہار کیا تو بیدی بوکھلا سا گیا۔ باری صاحب تاڑ گئے کہ معاملہ کیا ہے اور شولوخوف کی ناول نویسی پر ایک لیکچر شروع کر دیا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ بیدی صاحب کو تھوڑی دیر کے بعد بڑے بینڈے پن سے اس بات کا اقرار کرنا پڑا کہ اس نے شولوخوف کا زیرِ تبصرہ ناول نہیں پڑھا۔ میں نے بھی حقیقت کا اظہار کر دیا۔ باری صاحب خوب ہنسے اور آخر میں انہوں نے مخصوص انداز میں حاضرین کو بتایا کہ شولوخوف کا نام انہوں نے پہلی مرتبہ بیدی صاحب کے منھ سے سنا ہے اور اس کی ناول نویسی پر جو لیکچر انہوں نے پلایا ہے ان کی دماغی اختراع ہے!!
(محمود الحسن کی کتاب ‘لاہور شہرِ پُرکمال’ سے اقتباس)