گزشتہ سال انٹرنیٹ کی دنیا میں بٹ کوائن کا سال تھا، اس کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہر خبرنامے کا حصہ تھیں، حال ہی میں برطانیہ میں مقیم ایک پاکستانی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ بٹ کوائنز کا خالق ہے۔
تفصیلات کے مطابق بٹ کوائن کی مالک سمجھی جانے والی ویب سائٹ کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ اس کا مالک بلال خالد نامی پاکستانی ہے۔
سمجھا جاتا تھا کہ ساتوشی ناکا موتو نامی شخص دنیا بھر میں موجود بٹ کوائن کا مالک ہے جن کی مالیت اس وقت دس ارب امریکی ڈالر سے بھی زیادہ ہے لیکن حالیہ حیرت انگیز انکشاف نے ساری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔
بلال خالد کے مطابق اس نے اپنی شناخت چھپا کررکھی تھی لیکن اب اس نے اپنی اصلی شناخت کے ساتھ سامنے آنے کا فیصلہ کیا ہے، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح اس نے جیمز کان کا نام قا نونی طور پر حاصل کیا ۔
بتایا جارہا ہے کہ بلال خالد راولپنڈی کے رہائشی ہیں اور الخیر یونی ورسٹی میں تعلیم پذیر تھے جب انہوں نے یہ سلسلہ شروع کیا۔ وہ پاکستانی بینکر اور بی سی سی آئی نامی بینک کے مالک آغا حسن عابدی سے بے پناہ متاثر تھے اور یہ سارا نظام انہوں نے ان ہی کی طرز پر کھڑا کیا تھا۔
بلال نے اس سفر کے ساتھ ہی ییل ، ڈیوک اور کیلی فورنیا یونی ورسٹی سے کورسز کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ ان کا خیال تھا کہ بٹ کوائن جب مشہور ہوجائے گا تب کوئی نہ کوئی ان کی اصل شناخت ڈھونڈ نکالے گا لیکن کئی سال میں کسی نے بھی ایسا نہیں کیا۔
یہاں یہ بات بھی انتہائی دلچسپ ہے کہ اپنے شہریوں کے پیسے کی حفاظت کے پیشِ نظر پاکستان میں تما م اقسام کی کرپٹو کرنسی پر پابندی ہے اور حیرت انگیز طور پر دنیا کی سب سے بڑی کرپٹو کرنسی کا خالق ایک پاکستانی ہی نکلا ہے۔
بلال نے اپنی ویب سائٹ پر بٹ کوائن کی کہانی انتہائی طویل اور مفصل طور پر بیان کی ہے جس کے مطابق ان کے پاس نو لاکھ اسی ہزار بٹ کوائن تھے جن کی مالیت آج دس ارب امریکی ڈالر سے زائد ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بد قسمتی سے انہوں نے وہ ہارڈ ڈسک کھو دی جس میں ان کے ابتدائی بٹ کوائن تھے اور انہیں اس پر افسوس ہے ورنہ وہ آج اس روئے زمین پر سب سے امیر پاکستانی شہری ہوتے جو کہ دنیا کی سب سے طاقت ور کرپٹو کرنسی کا مالک ہوتا۔
ان کا کہنا ہے کہ اب انہوں نے حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے اور اسی لیے انہوں نے واپس اپنی اصل شناخت کے ساتھ سامنے آنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ بٹ کوائن کو مزید بہتر اور محفوظ بنا سکیں۔
بلال خالد نے اپنی شناخت اپنے ویب بلاگ کے ذریعےظاہر کی ہے ، ابھی آزاد ذرائع سے یہ بھی تصدیق نہیں کی جاسکی کہ آیا یہ بات درست بھی ہے کہ نہیں۔