کیا گرین اور ریڈ لائن بس سروس سے کراچی کے شہریوں کی، منی بسوں کی چھتوں پر سفر سے جان چھوٹ جائے گی؟ کیا یہ سروس ٹرام اور سرکلر ریلوے کا متبادل ہو سکتی ہے؟ اس رپورٹ میں ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوششش کی گئی ہے۔
دو چشم کشا خبریں
گرین لائن، بلیو لائن بس سروس کراچی کے ڈھائی کروڑ بدقسمت اور محروم عوام کے لیے کیا راحت اور ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوگی؟ اس سوال کے جواب سے قبل دو خبروں کی طرف جاتے ہیں، کچھ عرصہ قبل دو خبریں سامنے آئی تھیں، پہلی یہ کہ یورپی ملک لگزمبرگ ہر طرح کی عوامی ٹرانسپورٹ مفت فراہم کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے، اور دوسری خبر میں امریکی میگزین بلومبرگ نے کراچی کو عوامی ٹرانسپورٹ کے لحاظ سے دنیا کا بد ترین شہر قرار دے دیا تھا۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کراچی کے صرف 42 فی صد عوام کو خستہ حال پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب ہے، جب کہ مقامی سطح پر ماس ٹرانزٹ کا کوئی بھی منصوبہ فعال نہیں ہے۔
ان دونوں خبروں پر غور کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یورپی ملک جس نے پبلک ٹرانسپورٹ مفت کر دی، وہاں ایک تو عوام کے لیے سفری آسانی پیدا ہو گئی، دوسرا عوام کے اندر پبلک ٹرانسپورٹ کے زیادہ سے زیادہ استعمال کا رجحان بڑھا، دوسری جانب کراچی ہے جہاں لاکھوں عوام سستی سواری کو ترس رہے ہیں، عوامی ٹراسپورٹ دستیاب نہ ہونے کے سبب شہری ذاتی سواری کے استعمال پر مجبور ہیں، جس سے سڑکوں پر ٹریفک کا بوجھ اور ماحول میں آلودگی دونوں بڑھ رہے ہیں۔
پبلک ٹرانسپورٹ کیا ہے؟
ہمارے یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی تعریف بھی واضح نہیں ہے، شاید ہم رکشوں، مزدوں، چنگ چی، ویگنوں کو ہی پبلک ٹراسپورٹ سمجھتے ہیں مگر دراصل پبلک ٹرانسپورٹ ماس ٹرانزٹ کے وسیع منصوبوں پر مشتمل ہوتی ہے۔
کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ، اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟
1981 میں کراچی کی آبادی 54 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی اور آج متنازعہ مردم شماری کے مطابق 2 کروڑ ہے۔ 1978 میں کچی آبادی 20 لاکھ تھی اور آج ایک اندازے کے مطابق 90 لاکھ سے زائد ہے۔ 2005 میں نجی گاڑیوں کی تعداد 23 لاکھ 59 ہزار 256 تھی اور2021 جون کی حاصل شدہ رپورٹ میں یہ تعداد 80 لاکھ 60 ہزار تک جا پہنچی ہے۔
1995 میں جہاں موٹر سائیکلوں کی تعداد 3 لاکھ 61 ہزار 616 تھی، وہیں 2021 میں یہ تعداد بڑھ کر 55 لاکھ 84 ہزار 274 ہو گئی، جب کہ کاروں کی تعداد 6 لاکھ کے قریب تھی جو 16 لاکھ 6773 ہو گئی ہے۔
دوسری طرف، گزشتہ 40 برسوں میں کراچی کا شہری پھیلاؤ بھی کئی گنا بڑھ چکا ہے، گزشتہ 22 برسوں کے دوران کراچی میں عوامی ٹرانسپورٹ یا سڑک کے انفرا اسٹرکچر کے مقابلے میں نجی سواریوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ان غیر معمولی تبدیلیوں کے نتیجے میں سڑکوں پر ٹریفک کے رش، روڈ حادثات بالخصوص 55 لاکھ موٹر سائیکلوں کی سڑکوں پر موجودگی، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں اور سواریوں کے ساتھ پیش آنے والے حادثات اور ان کے سبب ہونے والی اموات کی تعداد میں زبردست اضافہ ہو چکا ہے۔ اور شہر کا فضائی معیار بھی سنگین حد تک متاثر ہوا۔ ان حالات نے شہریوں کی ذہنی و جسمانی صحت کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔
کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی حالات زار کیا ہے؟
کراچی میں رکشوں اور ٹیکسیوں کی تعداد شہر کی کل ٹریفک کا 10 فی صد ہے، جو 8 فی صد مسافروں کو سفری سہولیات فراہم کرتی ہے، ایک جائزے کے مطابق کراچی شہر کا ٹرانسپورٹ سسٹم 1998 میں 20 ہزار بسوں اور منی بسوں پر مشتمل تھا، آج یہ سکڑ کر صرف 4000 تک آ چکا ہے، جس میں تقریباً 3500 منی بسیں اور 500 بسیں ہیں، جو روزانہ صرف 56 لاکھ مسافروں کو سفر کی سہولت مہیا کرتی ہیں۔
یہ تعداد روزانہ سفر کرنے والوں کا صرف 42 فی صد ہے، گویا کراچی میں ایک بس کے حصے میں یومیہ 257 مسافر آتے ہیں، اسی طرح 1998 میں ان بسوں کے 200 روٹس تھے جو اب صرف 80 رہ گئے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی حالت زار دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 1980 کی دہائی کے بعد سے اس نظام میں کوئی جدت نہیں لائی جا سکی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی قلت کے باعث لوگوں کی اکژیت موٹر سائیکلوں یا اپنی ذاتی گاڑیوں میں سفر کرتی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شہر کی سڑکوں پر روزانہ اوسطاً 2000 نئی موٹر سائیکلیں اور 1000 نئی گاڑیاں لائی جا رہی ہیں۔ جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی کے لیے اس وقت 10 ہزار بڑی بسوں کی ضروت ہے۔
کراچی سرکلر ریلوے، ماضی، حال اور مستقبل
ماضی میں سرکلر ریلوے کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ کا مؤثر ذریعہ تھا، جس کے ذریعے روزانہ ہزاروں مسافر اپنی منزل مقصود پر پہنچتے تھے لیکن سرکلر ریلوے 1999 میں بند ہو گئی۔ اس کا 43 کلومیٹر طویل ٹریک تجاوزات کی نذر ہو گیا اور کئی مقامات پر تو ریلوے ٹریک کا نام و نشان تک مٹ گیا۔
ٹریفک مسائل کے حل کے لیے کراچی کی شہری حکومت نے 2006 میں جاپانی حکومت کے ایک ادارے جاپان انٹرنیشل کوآپریشن ایجنسی کے تعاون سے سرکلر ریلوے کی احیا کے لیے ایک جامع اور مفصل رپورٹ تیار کرائی، جس کا مقصد سرکلر ریلوے کو جدید خطوط پر استوار کرنا تھا۔ اس منصوبے کے تحت 43 کلو میٹر ریلوے لائن پر تجاوزات کا خاتمہ، وہاں آباد افراد کی متبادل جگہوں پر منتقلی اور جدید ترین ٹرین سسٹم متعارف کرانا تھا۔ مگر یہ منصوبہ بھی سرکاری تاخیری حربوں اور سرخ فیتے کا شکار ہو گیا۔
عوام کو ٹرانسپورٹ کی سہولیات کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک یہاں تک کہ ترقی پذیر ممالک میں بھی بہت حد تک حکومتیں عوام کو ٹرانسپورٹ کی سہولیات مہیا کر نے کی حتی الامکان کوشش کرتی رہتی ہیں۔ اگرچہ ٹرانسپورٹ آئینی لحاظ سے صوبائی معاملہ ہے، لیکن ملک کی معاشی سرگرمیوں کے اہم مرکز کراچی میں ٹرانسپورٹ کے نظام میں بہتری کے لیے وفاقی حکومت بھی ایک بڑے منصوبے کی تکمیل میں مصروف ہے۔
مسئلے کا حل کیا ہے؟ ماہرین کیا کہتے ہیں؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کی تباہی کا آغاز 1990 کی دہائی میں ہوا، جب سرکاری ٹرانسپورٹ کے نظام کو ادارے کی نا اہلی اور کرپشن کے باعث بند کر دیا گیا۔ پہلے کراچی ٹرانسپورٹ اور پھر سندھ روڈ ٹرانسپورٹ کو بتدریج تباہ و برباد کردیا گیا۔ اگرچہ مختلف حکومتوں نے مختلف ادوار میں سرکاری سطح پر عوام کے لیے ٹرانسپورٹ بسوں کا اہتمام کیا مگر نتیجہ تباہی و بربادی ہی نکلا۔ اس کا ایک مظاہرہ بلدیاتی نظام کے تحت شہری حکومت کا سی این جی بسوں کو کراچی کی سڑ کوں پر چلانے کا منصوبہ تھا۔
50 بسیں منصوبے کے تحت چلائی گئیں مگر یہ منصوبہ بھی بد انتظامی، خرد برد اور نااہلی کا بری طرح شکار ہوا، یہاں تک کہ ان بسوں کے لیے بنائے گئے بس ٹرمینل آج نجی مذبح خانوں، گاڑیوں کی مرمت، رنگ و روغن کرنے والوں، سبزی اور پھل فروشوں، اور بھکاریوں کی آماج گاہوں میں تبدیل ہو چکے ہیں، جس کے اطراف میں کروڑوں روپے کی مالیت کی سینکڑوں ناکارہ بسیں ایک قبرستان کا منظر پیش کر رہی ہیں۔
لیاری ایکسپریس وے، ناقص حکومتی منصوبہ بندی کی بدترین مثال
ہم یہاں کراچی میں بننے والے لیاری ایکسپریس وے کی مثال لیتے ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد چند ہزار گاڑیوں کے لیے سفر کا وقت کم کرنا تھا، یہ منصوبہ 23 ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہوا اور اس کی تعمیر کے سبب 2 لاکھ افراد کو نقل مکانی کرنی پڑی، جب کہ المیہ یہ بھی ہے کہ لیاری ایکسپریس وے پر بسوں اور کمرشل گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔
لیکن اس منصوبے پر آنے والی لاگت سے 2 ہزار بسیں چلائی جا سکتی تھیں جو لاکھوں افراد کو سفری سہولت مہیا کر سکتی تھیں۔ آج کی بات کریں تو 42 ارب روپے کی لاگت سے ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ اس کا مقصد سپر ہائی وے پر واقع بڑے تعمیراتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو سہولت فراہم کرنا ہے۔ اس منصوبے سے بھی گاڑی چلانے والے ہی مستفید ہوں گے، جب کہ غریب اور سفری سہولیات سے محروم عوام کے لیے کوئی جامع نظام ہنوز دلی دور است کے مترادف نظر آتا ہے۔ مگر ان تمام باتوں سے یہ حقیقت نظر انداز نہیں ہو جاتی کہ کراچی کو ایک مؤثر ٹرانسپورٹ کا نظام درکار ہے۔
یہی وجہ ہے کہ موجودہ کراچی میں سفری پریشانیوں کا حل کے سی آر کو بتایا جاتا ہے۔ نجی ٹرانسپورٹ مافیا کے حوالے سے کراچی بس سروس آرگنائزیشن کے سربراہ ارشاد بخاری کا کہنا ہے کہ نجی ٹرانسپورٹ سرکاری یا پبلک ٹرانسپورٹ کو ناکام کرنے کی ذمہ دار نہیں ہے۔ اگر یہ کاروبار اتنا منافع بخش ہے تو جن کے پاس آج بھی نجی ٹرانسپورٹ کے پرمٹ ہیں وہ لوگ نئی گاڑیاں کیوں نہیں خرید کر سڑکوں پر لے آتے، حقیقت یہ ہے کہ ہنگامہ آرائی، ہڑتالوں اور احتجاجوں کے دوران جلائی جانے والی گاڑیوں کا معاوضہ نہیں ملتا تھا۔ ’دوسری طرف جب جلسے جلوس ہوتے تھے تو دو دو تین تین دن کسی کی بھی بس پکڑ لی جاتی تھی جس سے ٹرانسپورٹر کی حوصلہ شکنی ہوئی۔‘
کیوں کہ کوئی بھی ’نئی سرمایہ کاری کا رسک اٹھانے کو تیار نہیں، دو ڈھائی کروڑ کون لگائے گا جب کرایہ بھی زیادہ سے زیادہ 50 روپے ہے۔‘
پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال ضروری کیوں؟
ہمارا ماحول جس تیزی سے بدل رہا ہے، یقیناً اس میں گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں کا بڑا ہاتھ ہے۔ اگر ٹریفک میں کمی لائی جائے تو یہ مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے، اس کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ میں اضافہ اور عوام میں اس کے استعمال کا رجحان بڑھانے کے لیے مراعات دینا ضروری ہے، جیسا کہ کرائے کم کیے جائیں، عوام کو آگاہی دی جائے کہ وہ ہر صورت ان سہولیات کا استعمال کریں۔
بی آر ٹی بس سروس بظاہر اچھی ابتدا لیکن
ہاں یہ ایک اچھا آغاز تو ہے لیکن اس سے شہریوں کی سفری مشکلات میں بہت بڑی تبدیلی نہیں آئے گی، بلکہ اس طرح کے منصوبوں پر ماہرین ایک الگ رائے رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جتنی رقم میں آپ بی آر ٹیز بنا رہے ہیں اتنے میں آپ کراچی کو تقریباً 20 ہزار بڑی بسیں دے سکتے تھے، جب کہ اس بی آرٹیز سے صرف 6 فی صد مسافر استفادہ کر سکیں گے۔ جب کہ 20 ہزار بسیں بہت بڑے رقبے کو سہولت فراہم کر سکتی ہیں اور ان میں اضافہ بھی آسان ہے۔