آئی ایم ایف کی جانب سے وفاقی حکومت سے سرکاری ملازمین کی پنشن اور مراعات سے متعلق قوانین میں ترامیم اور دیگر مطالبات کے بعد آئندہ بجٹ کیسا ہوگا؟
وفاقی حکومت متعدد معاشی چیلنجز کے درمیان مالی سال 2024-25کے لیے اپنے پہلے بجٹ کا اعلان اگلے ماہ جون میں کرنے جا رہی ہے۔
سالانہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 سے 15 فیصد تک اضافے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے تاہم حتمی فیصلہ حکومت وزارت خزانہ کی سفارشات کا جائزہ لینے کے بعد ہی کیا جائے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس لگائے جائیں گے؟ اس حوالے سے سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے اہم انکشافات کیے ہیں۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’سوال یہ ہے‘ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شبر زیدی نے بتایا کہ اگر آئی ایم ایف نے ہم سے کہا کہ آپ بڑی مالیت کا ٹیکس اکٹھا کریں تو یہ یقیناً تباہی کا راستہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ آج جو لوگ بھی پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف سے مذاکرات کررہے ہیں ان کی یا چیئرمین ایف بی آر کی ہمت نہیں کہ وہ آئی ایم ایف کے کسی فیگر کو ٹچ کرسکیں۔
پی آئی اے کی نجکاری سے متعلق شبر زیدی نے بتایا کہ خریداری میں جن 7پارٹیوں نے حصہ لیا ان میں کوئی بھی انٹرنیشنل پارٹی نہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ ان سات میں سے کوئی بھی خریداری میں سنجیدہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ آنے میں محض کچھ دن رہ گئے اور تعجب کی بات ہے کہ جو ایڈوائزری کونسل بنائی گئی اس میں وزیر خزانہ ہی موجود نہیں تو پھر گھوڑے کی لگام کس کے ہاتھ میں ہے۔
بجٹ میں نئے ٹیکسز سے متعلق سابق چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ تنخواہ دار طبقے پر تو اتنا ٹیکس عائد نہیں کیا جائے گا تاہم قوی امکان ہے کہ امپورٹ پر ٹیکس بڑھا دیا جائے گا جس کا براہ راست نقصان انڈسٹریز کو ہوگا۔