وزیراعظم کے مشیر رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ جوڈیشل کمیشن بنانا کوئی آسان کام نہیں، جوڈیشل کمیشن بنانے سے متعلق ٹی او آرز بھی بنائے جاتے ہیں۔
اے آر وائی کے پروگرام اعتراض ہے میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا نے کہا کہ ٹی او آرز کیلئے بیٹھ کر ہی بات کی جاتی ہے، جوڈیشل کمیشن نام کی چیز بنانی ہے تو وہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، جوڈیشل کمیشن کا سربراہ کون ہوگا، ٹی او آرز کیا ہونگے اس پر بات ہوتی ہے، بتایا گیا تھا کہ اتحادیوں کیساتھ بات چیت کرکے جواب دیں گے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ یہ کیا طریقہ ہے کہ پیغام بھیج دیا گیا کہ مذاکرات نہیں کرینگے، پارلیمانی جمہوری نظام میں مذاکرات ہی مسائل کا واحد حل ہیں، حزب اختلاف اور اقتدار کے درمیان ڈائیلاگ نہ ہوں تو ایوان نہیں چل سکتا۔
انھوں نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلافات پر بھی بات چیت ہونی چاہیے، شروع سے ہی پی ٹی آئی مذاکرات کیلئے سنجیدہ نہیں تھی، ایسے نہیں ہوتا کہ چارٹر آف ڈیمانڈ دیدیں اور حکم صادر کردیں، اسپیکر کو کہا ہے کہ 28 جنوری کو میٹنگ بلائیں تاکہ ہم جواب دیں۔
پی ٹی آئی کے بیک ڈور مذاکرات ، رانا ثنااللہ کا اہم بیان آگیا
وزیراعظم کے مشیر کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے جو کچھ ٹی او آرز بتائے ان میں کچھ پر اتفاق ہے کچھ پر نہیں، پی ٹی آئی کے بعض ٹی اوآرز پر ہمیں قطعاً اتفاق نہیں ان پر کمیشن نہیں بن سکتا۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ مذاکرات کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے اس کے مطابق ہی ہوتے ہیں، حکم جاری نہیں کیا جاتا کہ جوڈیشل کمیشن بنادیں ورنہ مذاکرات نہیں کرینگے، سربراہی اور ٹی او آرز ہم پر چھوڑ دیں تو جوڈیشل کمیشن بنادیں گے۔
پی ٹی آئی کی سیاست ہی یہ ہے حکومت میں اپوزیشن سے بات نہیں کرتے تھے، پی ٹی آئی اپوزیشن میں حکومت سے بات نہیں کرتی، ان کی سیاست ہی یہ ہے، بانی پی ٹی آئی تو بس کہتے ہیں کہ سب کو ختم کردیں۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ 26نومبر کو پی ٹی آئی کو جو ارادے تھے وہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہیں، 26نومبر کو ناکام ہوئے تو ان کی سوچ بھی بدلی اور مذاکرات کیلئے راضی ہوئے، سیاسی ایشوز پر اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی سے کوئی بات نہیں کرنی،
انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی اسٹیبلشمنٹ سے بات کی غلط فہمی آنے والے دنوں میں دور ہوجائے گی، دہشت گردی اور دیگر ایشوز پر اسٹیبلشمنٹ سے پی ٹی آئی بات کرسکتی ہے، 9مئی پر بھی اسٹیبلشمنٹ کہہ چکی ہے پہلے معافی مانگیں پھربات ہوسکتی ہے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ پیکا ایکٹ ترمیمی بل کے ذریعے حدود کا تعین کیا گیا ہے، پیکا ایکٹ انٹرنیٹ کی رفتار کم کرنے کا قانون نہیں ہے۔