تازہ ترین

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

دو درویش اور دنیا داری

یہ ایک درویش کا قصہ ہے، ایک بہت پرہیز گار اور نیک انسان کا جنھوں نے خود کو ایک آزمائش میں‌ ڈال لیا تھا، مگر جلد ہی ان پر اپنے کیے کی حقیقت کھل گئی اور انھوں نے خدا کے کاموں میں مصلحت کو سمجھا اور اپنے دنیا میں آنے کا مقصد جان لیا۔

کہتے ہیں اس بزرگ کے دل میں خیال آیا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ محنت کیے بغیر حلال رزق عطا ہو اور ان کا زیادہ وقت عبادت میں گزرے۔ بزرگ نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے روز کی مشقت سے بچا اور حلال رزق عطا فرما، میں زیادہ عبادت نہیں کر پاتا۔ کیوں کہ دن کا خاصا وقت معاش کی بھاگ دوڑ میں‌ گزر جاتا ہے۔

اس رات جب بزرگ سوئے تو خواب میں کسی پہاڑ کے نزدیک جنگل دیکھا جس میں ایک جگہ بہت سے پھل دار درخت تھے، ان کی دعا قبول ہو گئی تھی اور یہ خواب ایک اشارہ تھا۔

بزرگ نے جنگل جاکر بہت سے پھل توڑ لیے اور گھر لے آئے۔ وہ نہایت میٹھے اور فرحت بخش تھے اور ان کا شکم بھرنے کو بہت تھے۔

درویش نے محسوس کیا کہ ان پھلوں کو کھانے سے ان کی گفتگو اور لب و لہجے میں بڑی تاثیر اور شیرینی پیدا ہو گئی ہے اور ان کا کلام سن کر لوگ بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں‌ اور ان سے بڑی محبت کرنے لگے ہیں۔ اب انھیں چاہنے والے ہر وقت گھیرے رہتے اور یوں ان کو عبادت کا وقت نہ ملتا۔

بزرگ کے دل میں ایک اور خیال آیا اور انھوں دعا کی کہ اے پروردگار! مجھے وہ انعام عطا فرما جو سب سے پوشیدہ ہو۔ اس دعا کے بعد ان کی قوتِ گویائی جاتی رہی۔

بزرگ کے دل کو اطمینان ہوا کیوں کہ پہلے ان کی گفتگو سننے کے لیے ہر وقت لوگ ان کے پاس حاضر رہتے تھے، لیکن اس طرح رفتہ رفتہ سب دور ہوگئے اور یوں ان کو عبادت کا زیادہ سے زیادہ موقع ملنے لگا اور قربِ خداوندی میں لطف آنے لگا۔

اب بزرگ روزی کمانے اور محنت و مشقت کی فکر سے آزاد تھے اور لوگوں سے بھی چھٹکارا مل گیا تھا۔

بزرگ کے پاس کمائی کے دنوں کا ایک درہم بچا ہوا تھا جسے انھوں نے اپنی آستین میں سی رکھا تھا۔ ایک مرتبہ ان کا گزر جنگل کے قریب سے ہوا جہاں ایک لکڑہارے کو دیکھا جو بہت تھکا ہوا اور پسینے میں شرابور تھا، بزرگ کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ یہ درہم اسے دے دوں؟ مجھے تو اللہ پاک رزق دے رہا ہے، لیکن اس درہم سے یہ لکڑہارا دو چار روز کی مشقت اور روزی کے غم سے بچ جائے گا۔

جنگل میں ملنے والا وہ لکڑہارا دراصل ایک روشن ضمیر اور متقی تھا۔ اللہ تعالیٰ کا اس پر خاص کرم تھا، بزرگ نے خود یہ واقعہ بتایا کہ اس نے کشف سے میرے دل کی ہر بات جان لی اور غصے سے بھر گیا۔

اس نے اپنی لکڑیوں کا گٹھا زمین پر رکھا اور دعا کی یہ سب سونے کی بن جائیں، اور ایسا ہی ہوا۔ یہ دیکھ کر مجھے ہوش نہ رہا جب حواس بحال ہوئے تو وہ ولی اللہ دعا مانگ رہا تھا کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میری کرامت میری شہرت کا باعث نہ بن جائے، اس لیے ان لکڑیوں کو اپنی اصل حالت پر کر دے۔ اور اس بار بھی اس کی دعا قبول ہوئی، اس مرد نے مجھے دیکھا اور لکڑیاں لاد کر اپنی راہ چل دیا۔

بزرگ نے کہا کہ میں نے اس واقعے کا بھید پا لیا، قدرت نے مجھے سمجھایا تھا کہ اس کا ایک باقاعدہ نظام ہے جس سے ہٹنا مسائل پیدا کرتا ہے۔ تب سے میں دوبارہ محنت کے ساتھ حلال روزی کی جستجو کرنے لگا اور جو وقت ملتا اس میں خشوع خضوع سے عبادت کرتا۔

اس حکایت کو حضرت رومی سے منسوب کیا جاتا ہے جو ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ عبادات اور دنیاوی زندگی دونوں‌ میں توازن پیدا کرنا چاہیے اور دین میں فکرِ معاش اور حلال روزی کی کوشش ترک کرنے کو پسند نہیں‌ کیا گیا ہے۔

Comments

- Advertisement -