کراچی: سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اربوں کی کرپشن کے الزام سے متعلق لکھے گئے آفیسرز ایسوسی ایشن کے خط کو بے بنیاد قرار دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق ترجمان سول ایوی ایشن نے کہا کہ ہم کرپشن میں ملوث اور ضمانت پر رہائی پانے والے زرین گل کے ڈی جی سی اے اے پر بے بنیاد الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
سی اے اے آفیسر ایسوسی ایشن کی جانب سے لکھے گئے خط کے حوالے سے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ترجمان نے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے خطوط میں کوئی نئی بات نہیں ہے، ان خطوط میں لگائے گئے الزامات سراسر غلط ہیں ، مفاد پرست عناصر اس قسم کی غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ اس قسم کی حرکات کو میرٹ بیسڈ پالیسیز اور کرپشن کے خلاف زیرو ٹالرنس کا ردعمل قرار دیا جا سکتا ہے، بے بنیاد خطوط ادارے کی ساکھ کو جان بوجھ کر نقصان پہنچانے کی ناکام کوشش ہے جو کسی کے مفاد میں نہیں۔
خط میں کیا الزامات لگائے گئے؟
واضح رہے کہ کرپشن میں ملوث اور ضمانت پر رہائی پانے والے سی اے اے آفیسر ایسوسی ایشن کے چیئرمین زرین گل نے وزیر ہوا بازی اور سیکریٹری ایوی ایشن کو خط لکھ کر اتھارٹی میں اربوں روپے کی کرپشن کے بارے میں دعویٰ کیا تھا، خط میں ڈی جی سول ایوی ایشن خاقان مرتضیٰ اور ان کی ٹیم کی مبینہ کرپشن کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا تھا۔
خط میں لکھا گیا تھا کہ پاکستان سول ایوی ایشن کو مبینہ طور 2 ہزار ارب کا نقصان پہنچایا گیا ہے، خاقان مرتضیٰ ڈی جی سی اے اے کی اہلیت نہیں رکھتے، ان کو ایوی ایشن انڈسٹری کا خاطر خواہ تجربہ بھی نہیں، اور انھوں نے جعلی لائسنسگ معاملے پر قومی ایئر لائن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
خط میں لکھا گیا کہ لاہور والٹن ایئر پورٹ کی 450 ارب روپے کی زمین میں 400 ارب کا نقصان پہنچایا گیا، بے نظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے سلسلے میں کابینہ اور وزیر اعظم کی واضح ہدایت کو نظر انداز کیا گیا، اور ایئر پورٹ کی زمین کے قبضے کو واگزار نہیں کروایا جا سکا، جس کی وجہ سے 1300 ارب سے زائد نقصان پہنچایا گیا۔
خط کے مطابق پی آئی اے سے تقریباً 300 ارب سے زائد کے بقایا جات کی وصولی میں بھی ناکامی رہی، قومی ایئر لائن سے کراچی ایئر پورٹ پر 10 ارب کی لیز کی رقم کی وصولی ہونی ہے، اور اے ایس ایف لیز کی 5 ارب روپے کی وصولی میں بھی ناکامی رہی۔
خط میں ادارے کے اندرونی انصاف کے نظام کی کمزوری کی بھی نشان دہی کی گئی، اور کہا گیا کہ ڈی جی سی اے اے کے عدم تعاون کی وجہ سے سو سے زائد افسران و ملازمین نے عدالت سے رجوع کیا، انھوں نے دو V8 لینڈ کروزر اور ایک پراڈو کی غیر قانونی رجسٹریشن کروائی، مختلف عہدوں پر قریبی دوستوں اور عزیز و اقارب کی کنٹریکٹ پر تعیناتیاں کیں۔
خط کے مطابق سی اے کلب کی آمدنی میں 48 لاکھ روپے کی کمی ہوئی، آؤٹ سورسنگ کے سلسلے میں ایئر پورٹ پر دیگر اداروں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، پنشنرز کے معاملے پر بھی عدم دل چسپی دکھائی گئی، ملازمین بحالی کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا، اسلام آباد ایئر پورٹ پر ایف بی آر کو 4 ایکڑ زمین لیز میں قومی خزانے کو 1 ارب کا نقصان پہنچایا گیا۔
خط میں درخواست کی گئی تھی کہ ڈی جی سی اے اے اور ان کی ٹیم کا کیس ایف آئی اے کو بھیجا جائے، اور ایف آئی اے خاقان مرتضیٰ اور ان کی ٹیم سے مبینہ کرپشن کی تحقیقات کرے، اور قومی خزانے کو نقصان سے بچایا جائے۔