امریکی ریاست کیلیفیورنیا کے شہر لاس اینجلس کے شمال میں جنگلات میں نئی آگ لگ گئی، پچیس ہزار افراد کو انخلا کا حکم دے دیا گیا۔
غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق کاسٹائک لیک کے قریب پہاڑوں پر آگ کے شعلے اُڑ رہے ہیں، آگ تیزی سے پھیل رہی ہے جس کی وجہ سے لاس اینجلس، اور وینچورا کاؤنٹی میں پچیس ہزار افراد کو انخلا کا حکم دیا گیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق 500 قیدیوں کو دیگر جیلوں میں منتقل کردیا گیا ہے، دو گھنٹے میں طوفانی ہواؤں کے باعث پانچ ہزارایکڑ رقبہ آگ کی لپیٹ میں آگیا ہے۔
فائر فائٹرز آگ بجھانے میں مصروف ہیں۔ ہیلی کاپٹرز اور چھوٹے طیارے بھی آگ بجھانے کی کوششوں میں حصہ لے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ ریاست پہلے ہی خوفناک آگ کی تباہ کاریوں سے نمٹ رہی ہے،7 جنوری سے مختلف مقامات پر لگی آگ پر قابو پانے کی کوششیں اب بھی جاری ہیں، آگ نے بڑے پیمانے پر تباہی مچاتے ہوئے چالیس ہزار ایکڑ رقبے کو خاکستر کر دیا ہے۔
اس سے قبل کیلیفورنیا میں موسم کی پیشن گوئی کرنے والے ادارے ’این ڈبلیو ایس‘ نے سانتا اینا ہواؤں سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ہفتے آگ میں ایک بار پھر شدت کا امکان ہے۔
جنگلات میں آگ کے نتیجے میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور ایک لاکھ سے علاقہ مکین اپنے گھروں اور املاک کو چھوڑ کر محفوظ مقامات کی جانب روانہ ہوچکے ہیں۔
امریکا کے مقامی قانون سازوں نے کیلیفورنیا میں اکثر ہونے والی جنگل کی آگ سے ہونے والی تباہی سے بچاؤ کیلیے چار سال قبل ہی کچھ قواعد و ضوابط منظور کیے تھے۔ ن قواعد میں اس بات پر زور دیا گیا گیا تھا کہ خشک لکڑیوں سمیت آتش گیر مادوں کو گھروں سے کم از کم پانچ فٹ کے فاصلے تک رکھا جائے۔ان قواعد و ضوابط کا اطلاق یکم جنوری 2023سے ہونا تھا جو نہ ہوسکا۔
اس حوالے سے ماہرین کو اس بات کا یقین تو نہیں کہ ان قوانین پر عمل درآمد کیا جاتا تو اتنا نقصان نہ ہوتا لیکن قوانین کے نافذ نہ ہونے پر بھی شدید تنقید کی جارہی ہے۔
ویڈیو: لاس اینجلس آگ نے دنیا کے سب سے بڑے بیٹری پلانٹ کو لپیٹ میں لے لیا
ریاست کے ڈیمو کریٹک سینیٹر ہنری سٹرن کا کہنا ہے کہ قوانین کا نفاذ نہ ہونا انتہائی مایوس کن ہے، میں یہ بات مکمل یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ ناکامی محسوس ہوتی ہے۔