جمعرات, دسمبر 5, 2024
اشتہار

کاربن کریڈٹ مارکیٹ: زرِ مبادلہ کمانے کا اہم موقع

اشتہار

حیرت انگیز

موسمیاتی تبدیلیاں پوری دنیا کو متاثر کررہی ہیں۔ اور پاکستان، جس کا حصہ فضائی آلودگی میں بہت ہی کم ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے 10 ملکوں میں سرفہرست ہے۔

تقریباً ہر سال ہی سیلاب ملک کے کسی نہ کسی حصے میں تباہی مچاتے ہیں۔ مگر سال 2022 میں سندھ میں کلاوڈ برسٹ کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو تاحال آباد نہیں کیا جاسکا ہے۔

ان تباہ کن بارشوں کے بعد اقوم متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینتھونی نے ستمبر میں پاکستان کا دورہ کیا۔ دورے کے اختتام پر بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ کی جانے والی میڈیا ٹاک کو بطور صحافی راقم نے براہِ راست کور کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ وہ جو کچھ دیکھ کر آئے ہیں، بہت ہی تباہ کن ہے۔ مگر جو تباہی پاکستان میں آئی ہے، اس میں پاکستان ذمہ دار نہیں ہے۔ اس تباہی کی ذمہ داری مغربی ملکوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے ترقی کے نام پر فضا کو بہت زیادہ آلودہ کردیا ہے۔ اور اب مغرب کو اس تباہی سے ہونے والے گھروں کے انفرااسٹرکچر کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

- Advertisement -

اسی سال موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے بھارت کے مرکزی بینک کے سابق گورنر رکھو رام راجن نے جیکبسن لیکچر سیریز سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ منطقۂ حرارہ جنوبی کے ملکوں کے پاس جس میں ایشیائی اور افریقی ملک شامل ہیں اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ موسمی تبدیلیوں سے نمٹ سکیں اور اس بات کے خدشات موجود ہیں کہ لوگ ان ملکوں سے مغرب کی جانب ہجرت شروع کر دیں، ایسے مہاجرین کو کلائمٹ ریفوجی کہا جاتا ہے۔ اس لئے مغرب کو ان افراد اور حکومتوں کی مدد کرنا ہوگی جو موسمی تبدیلیوں سے متاثر ہورہے ہیں۔

انتھک سفارتی کاوشوں کے بعد پاکستان نے سال 2023 میں دنیا کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ سال 2022 میں ہونے والی بارشوں سے ہونے والی تباہی کے بعد اب تعمیر نو کے لئے فنڈز مہیا کرے۔ پاکستان نے عالمی بینک اور دیگر امداد دینے والے غیر ملکی اداروں کے اشتراک سے بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 16 ارب ڈالر لگایا ہے۔ جس میں سے پاکستان 8 ارب ڈالر اپنے وسائل سے خرچ کرے گا جبکہ 8 ارب ڈالر کی معاونت عالمی برادری سے طلب کی گئی ہے اور کلائمٹ ریزیلینٹ فنڈز کے ذریعے عالمی برادری نے 9 ارب ڈالر فراہمی کا وعدہ کیا مگر یہ رقم تاحال موصول نہیں ہوسکی ہے۔

شدید بارشوں اور سیلاب کے علاوہ پاکستان میں موسم کی شدت بڑھتی جارہی ہے۔ شدید سردیاں اور گرمی کے مہینوں‌ میں بلند درجہ حرارت، بے وقت بارشیں اور سیلاب جیسے چند مسائل ہیں جن کا سامنا پاکستان کر رہا ہے۔ سخت موسمی حالات کی وجہ سے صنعتوں میں پیداواری عمل، محنت کشوں اور مصنوعات کی بروقت نقل و حرکت میں خلل، افرادی قوت کی پیداواری صلاحیت میں کمی، بیماریوں اور اموات کی وجہ سے بھی معاشی نقصان بڑھ جاتا ہے۔ اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے سالانہ 4 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوتا ہے جو کہ آئی ایم ایف کے سالانہ معاونت سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔

موسمی تبدیلیاں ہو کیوں رہی ہیں۔ اس کا جواب سائنس دان یوں دیتے ہیں کہ مغربی ملکوں کی صنعتوں سے ماضی میں اور اس وقت بھی ایسی گیسوں کا اخراج جاری ہے جس سے کرۂ ارض میں موجود ہوا آلودہ ہوگئی ہے۔ اور اس آلودگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ گیسوں، گاڑیوں اور ڈیری کے جانوروں سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں جن میں آبی بخارات، کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اوزون ون، نائٹرو آکسائیڈ اور اس جیسی دیگر گیسیں شامل ہیں، بہت زیادہ مقدار میں فضا میں شامل ہوگئی ہیں، فضا میں ان گیسوں کے جمع ہونے سے موسم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سورج کی تپش سے فضا یا یہ گیسیں بہت زیادہ گرم ہوجاتی ہیں جس سے مجموعی درجۂ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق میتھین گیس کا ایک مالیکیول چالیس سال تک فضا میں موجود رہتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر مغرب فضاؤں کو آلودہ کررہا ہے۔ اور اس حوالے سے پاکستان جیسے ملکوں کی معاونت کو تیار بھی نہیں تو اس کا حل کیا ہے؟ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر سالانہ چار ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے تو پاکستان مغربی کمپنیوں سے سالانہ کم از کم فوری طور پر ایک ارب ڈالر کاربن کریڈٹس کی رضا کارانہ مارکیٹ میں فروخت سے کما سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں 5 کروڑ ڈالر مالیت کے کاربن کریڈٹس کے چھ منصوبے چل رہے ہیں۔ دنیا میں کاربن کریڈٹ مارکیٹ کا حجم مسلسل بڑھ رہا ہے اور یہ مارکیٹ 950 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ اور آنے والے وقتوں میں یہ مارکیٹ مذید بڑھ سکتی ہے۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ مغربی ملکوں کی صنعتیں بڑے پیمانے پر گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کر رہی ہیں۔ اب ان کمپنیوں کو حکومت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ جتنی گیس وہ فضا میں چھوڑ رہی ہیں اس کے مساوی کاربن کریڈٹ کو خرید لیں اور اس کا جمع تفریق صفر ہو۔ یعنی کاربن کا اخراج اور کاربن کریڈٹس یعنی فضا سے کاربن کم کرنا ہے۔ کاربن کریڈٹ یا فضا سے کاربن اخراج کو صفر رکھنے کے لئے مختلف طریقہ کار استعمال ہوتے ہیں۔ جن میں ایمیشن ٹریڈنگ، کاربن کیپ ٹریڈنگ، کم کاربن کا اخراج کرنے والی ٹیکنالوجیز، متبادل توانائی میں سرمایہ کاری اور مستحکم ترقی جیسے منصوبے شامل ہیں۔

اگر ایک درخت لگانے سے ایسے طریقوں سے کاشت کرنے جس سے زیادہ سے زیادہ گرین ہاؤس گیسز فضا سے ختم ہوں۔ اور ان اقدامات کی وجہ سے اگر ایک ٹن کاربن ڈآئی آکسائیڈ گیس فضا سے ختم ہو تو اس کو ایک کاربن کریڈٹ کہتے ہیں۔ ہر ملک میں کاربن کریڈٹ کی قیمت مخلتف ہے۔ یورپی یونین کے کسی ملک میں اگر ایک کاربن کریڈٹ دستیاب ہو تو اس کی قیمت 30 سے 50 یورو کے درمیان ہو گی۔ جبکہ پاکستان میں ایک ٹن کاربن کے اخراج کو جذب کرنے پر 10 سے 15 ڈالر کا ایک کاربن کریڈٹ ہوگا۔

کاربن کریڈٹ حاصل کرنے کے لئے کیا کرنا ہوگا؟ اگر آپ کے پاس ایک قطع زمین موجود ہے تو آپ کو کاربن کریڈٹ کی رپورٹ تیار کرنے والی کسی کنسلٹنٹ کمپنی سے رابطہ کرنا ہوگا جس کی شہرت کاربن کریڈٹ مارکیٹ میں اچھی ہو۔ یہ کنسلٹنٹ آپ کے لئے کاربن کریڈٹ رپورٹ تیار کرے گا۔ جس کے کئی مراحل ہیں جیسا کہ ڈیٹا جمع کرنا، تجزیہ کرنا، زمین کی ساخت، موسمی حالات کے حوالے سے موضوع درخت کی قسم، درختوں کی تعداد جیسی معلومات پر مبنی رپورٹ۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر ایک تیسری پارٹی اس کا جائزہ لیتی ہے۔ اور سرٹیفکٹ جاری کرتی ہے۔ اس رپورٹ کی تیاری میں چند ہزار ڈالر سے لے کر ایک لاکھ ڈالر تک اخراجات ہوسکتے ہیں۔ یہ اخراجات اس پر منحصر ہیں کہ رپورٹ کی پیچیدگی کتنی ہے۔ رپورٹ کاربن کریڈٹس کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کا دس فیصد تک ہوسکتے ہیں۔ رپورٹ کی تیاری اور تصدیق کے بعد کریڈٹس کو فروخت کر لئے مارکیٹ میں بروکرز کمپنیاں موجود ہیں انہیں فروخت کرنے کے لئے دیا جاتا ہے۔ جو کہ 10 سے 15 فیصد تک کمیشن لیتے ہیں۔ یعنی ایک کاربن کریڈٹ کے باغبانی اور زراعت کے منصوبے میں رپورٹ کی تیاری اور فروخت پر 25 فیصد تک اخراجات فیس کی صورت میں نکل سکتے ہیں۔ یعنی اگر ایک کاربن کریڈٹ 10 ڈالر کا ہے تو اس میں سے 2.5 ڈالر رپورٹ کی تیاری اور فروخت کے کمیشن کی نذر ہوجائیں گے۔ اور آپ کو 7.5 ڈالر ملیں گے۔

کاربن کریڈٹ کی رضاکارانہ مارکیٹ میں فروخت کو پاکستان اپنے لئے قیمتی زرمبادلہ کمانے کا موقع بنا سکتا ہے۔ پاکستان گرین انیشیٹو کے پاس 7 کروڑ 96 لاکھ ہیکٹر زمین زراعت کے لیے دستیاب ہے۔ جس میں سے 2 کروڑ 41 لاکھ ہیکٹر زیر کاشت ہے اور حکومت کے پاس 91 لاکھ ہیکٹر زمین بے آباد پڑی ہے۔ اور اسی بے آباد زمین میں سے 48 لاکھ ہیکٹر پاکستان گرین انیشیٹو کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ باقی ماندہ زمین پر کاربن کریڈٹس کے لئے درخت لگا کر مقامی ماحولیات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ پھل دار درختوں کے ذریعے مقامی خوارک اور روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے جبکہ اسی کاربن کریڈٹس کو فروخت کر کے سالانہ کم از کم ایک ارب ڈالر بھی کمائے جاسکتے ہیں۔

Comments

اہم ترین

راجہ کامران
راجہ کامران
راجہ کامران سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ ان کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

مزید خبریں