ہماری زمین کو آلودہ کرنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار کاربن اخراج ہے جو مختلف صنعتوں سے بے تحاشہ مقدار میں خارج ہوتا ہے، تاہم اب اس کاربن کو قابو کرنے کا ایک طریقہ سامنے آگیا ہے۔
آسٹریلوی ماہرین نے کاربن اخراج کو ٹھوس میں بدلنے کا تجربہ کیا ہے جس سے ایک طرف تو ٹھوس کاربن صنعتی استعمال کے لیے دستیاب ہوگی تو دوسری جانب خطرناک حدوں کو چھوتی فضائی آلودگی میں بھی کمی واقع ہوگی۔
آسٹریلیا کی آر ایم آئی ٹی یونیورسٹی میں کیے جانے والے اس کامیاب تجربے میں ماہرین نے کاربن گیس کو ٹھوس کوئلے کے ٹکڑوں میں بدل دیا۔
اس سے قبل کاربن گیس کو مائع میں بدلنے کے تجربات تو کیے جاتے رہے ہیں تاہم آسٹریلوی ماہرین کا کہنا ہے کہ کاربن کو ٹھوس میں بدلنا ایک ماحول دوست طریقہ ہے۔ تحقیق میں شامل ماہرین کے مطابق یہ کاربن اخراج کی تباہی کو واپس پلٹ دینے کومترادف ہے۔
اس سے قبل کاربن کو ٹھوس میں بدلنے کا تجربہ کیا جاچکا ہے تاہم اس میں کاربن کی شکل نہایت گرم درجہ حرارت پر تبدیل کی جاتی تھی جس کے بعد وہ کسی بھی قسم کے استعمال کے قابل نہیں رہتا تھا۔
اب حالیہ تکنیک میں اسے مائع کی آمیزش کے ساتھ ٹھوس میں بدلا جارہا ہے جس میں معمول کا درجہ حرارت استعمال ہوتا ہے۔
اس تکینیک میں کاربن گیس کو برق پاش مائع میں گھولا جاتا ہے جس کے بعد اس محلول کو الیکٹرک کرنٹ سے چارج کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کاربن گیس آہستہ آہستہ کوئلے میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
اس عمل کے دوران ایک قسم کا فیول بھی پیدا ہوتا ہے جو مختلف صنعتی استعمالات کے کام آسکتا ہے۔
اس سے قبل یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس (یو سی ایل اے) میں بھی اسی نوعیت کا تجربہ کیا گیا جس میں کاربن گیس کو کنکریٹ میں تبدیل کردیا گیا۔
سی او ٹو کریٹ کا نام دیے جانے والے اس کاربن کو تیار کرنے کے لیے چمنیوں کے ذریعہ دھواں جمع کیا گیا اور بعد ازاں ان میں سے کاربن کو الگ کر کے اسے لیموں کے ساتھ ملا کر تھری ڈی پرنٹ کیا گیا۔
ماہرین کے مطابق کاربن سے تیار اس کنکریٹ سے سڑکیں اور پل تعمیر کی جاسکتی ہیں۔
سنہ 2016 میں آئس لینڈ میں کیے جانے والے ایک اور تجربے میں کاربن کو پانی کے ساتھ مکس کر کے اسے زمین میں گہرائی تک پمپ کیا گیا۔ اسے اتنی گہرائی تک پمپ کیا گیا جہاں آتش فشاں کے ٹھوس پتھر موجود ہوتے ہیں اور وہاں یہ فوری طور پر ٹھوس پتھر میں تبدیل ہوگیا۔
’کارب فکس پروجیکٹ‘ کہلایا جانے والا یہ پروجیکٹ آئس لینڈ کے دارالحکومت کو بجلی بھی فراہم کر رہا ہے۔ یہ پلانٹ سالانہ 40 ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ استعمال کرتا ہے۔
خیال رہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اس وقت گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ہے اور سائنسدان ایک عرصے سے کاربن کو محفوظ کرنے یعنی’کاربن کیپچر اینڈ اسٹوریج ۔ سی سی ایس‘ پر زور دے رہے ہیں۔