بڑھتی ہوئی عالمی حدت کے باعث درجہ حرارت میں اضافہ کے نتیجے میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ بڑھتی جا رہی ہے جس سے ماحول میں آلودگی کے ساتھ خوردنی اجناس میں پروٹین کی مقدار بھی کم ہو رہی ہے۔
اس حوالے سے سوئٹزر لینڈ میں سائنسدانوں نے بڑا کارنامہ انجام دیتے ہوئے ایک ایسی مشین بنائی ہے جو ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کھینچنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اب دنیا کی سب سے بڑی اس مشین نے کام کا آغاز کردیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ہوا سے کھینچ کر چٹان میں تبدیل کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے پلانٹ نے یورپی ملک آئس لینڈ میں کام شروع کردیا۔
اس پلانٹ کو "اورکا” کا نام دیا گیا ہے، اورکا آئس لینڈ کی زبان کا ایک لفظ ہے جس کا مطلب توانائی ہے۔ یہ پلانٹ چار یونٹس پر مشتمل ہے اور ہر یونٹ دو دھاتی باکسز پر مشتمل ہے جو دیکھنے میں شپنگ کنٹینر جیسے نظر آتے ہیں۔
Today our vision becomes reality.
With our Icelandic partners @Carbfix and ON Power, we launch #Orca, the world’s first large-scale #DirectAirCapture and storage plant.
The launch will be live-streamed at 5pm CET / 3pm GMT / 11am EST via the link below: https://t.co/6oEAtK0ZlG pic.twitter.com/zOA5UNUshE— Climeworks (@Climeworks) September 8, 2021
اس پلانٹ کو سوئٹزر لینڈ کی کمپنی کلائم ورکس اور آئس لینڈ کی کمپنی کارب فکس نے تیار کیا ہے۔ کمپنیوں کے مطابق یہ پلانٹ ہر سال ہوا میں موجود 4 ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کی صفائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یو ایس ماحولیاتی ادارے کے مطابق یہ مقدار 870 گاڑیوں سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کے برابر ہے جبکہ اس پلانٹ کی لاگت ایک سے ڈیڑھ کروڑ ڈالرز ہے۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کو اکٹھا کرنے کے لیے پلانٹ کے پنکھوں کو استعمال کیا جاتا ہے جو ہوا کو کلکٹر میں اکٹھا کرتا ہے جس کے اندر ایک فلٹر میٹریل بھی ہے۔
جب فلٹر میٹریل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ بھر جاتی ہے تو یہ کلکٹر بند ہوجاتا ہے اور اس کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے تاکہ میٹریل سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو خارج کیا جاسکے۔
اس کے بعد یہ گیس پانی میں مکس ہوتی ہے اور بعد ازاں ایک ہزار میٹر گہرائی میں ایک چٹان میں نصب کردی جاتی ہے تاکہ اسے ٹھوس شکل دی جاسکے۔
کمپنیوں کو توقع ہے کہ اس طرح کی ٹیکنالوجی موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ میں ایک اہم ذریعہ ثابت ہوسکے گی مگر ناقدین کا کہنا تھا کہ یہ ٹیکنالوجی بہت مہنگی ہے اور اسے بڑے پیمانے پر استعمال کرنے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔