تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

جدید ٹیکنالوجی : سائنسدانوں نے ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ نکال کر اسے کیا بنا دیا؟

بڑھتی ہوئی عالمی حدت کے باعث درجہ حرارت میں اضافہ کے نتیجے میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ بڑھتی جا رہی ہے جس سے ماحول میں آلودگی کے ساتھ خوردنی اجناس میں پروٹین کی مقدار بھی کم ہو رہی ہے۔

اس حوالے سے سوئٹزر لینڈ میں سائنسدانوں نے بڑا کارنامہ انجام دیتے ہوئے ایک ایسی مشین بنائی ہے جو ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کھینچنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اب دنیا کی سب سے بڑی اس مشین نے کام کا آغاز کردیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ہوا سے کھینچ کر چٹان میں تبدیل کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے پلانٹ نے یورپی ملک آئس لینڈ میں کام شروع کردیا۔

A facility for capturing CO2 from air of Swiss Climeworks AG is placed on the roof of a waste incinerating plant in Hinwil, Switzerland July 18, 2017. REUTERS/Arnd Wiegmann/File Photo

اس پلانٹ کو "اورکا” کا نام دیا گیا ہے، اورکا آئس لینڈ کی زبان کا ایک لفظ ہے جس کا مطلب توانائی ہے۔ یہ پلانٹ چار یونٹس پر مشتمل ہے اور ہر یونٹ دو دھاتی باکسز پر مشتمل ہے جو دیکھنے میں شپنگ کنٹینر جیسے نظر آتے ہیں۔

اس پلانٹ کو سوئٹزر لینڈ کی کمپنی کلائم ورکس اور آئس لینڈ کی کمپنی کارب فکس نے تیار کیا ہے۔ کمپنیوں کے مطابق یہ پلانٹ ہر سال ہوا میں موجود 4 ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کی صفائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یو ایس ماحولیاتی ادارے کے مطابق یہ مقدار 870 گاڑیوں سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کے برابر ہے جبکہ اس پلانٹ کی لاگت ایک سے ڈیڑھ کروڑ ڈالرز ہے۔

کاربن ڈائی آکسائیڈ کو اکٹھا کرنے کے لیے پلانٹ کے پنکھوں کو استعمال کیا جاتا ہے جو ہوا کو کلکٹر میں اکٹھا کرتا ہے جس کے اندر ایک فلٹر میٹریل بھی ہے۔

جب فلٹر میٹریل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ بھر جاتی ہے تو یہ کلکٹر بند ہوجاتا ہے اور اس کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے تاکہ میٹریل سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو خارج کیا جاسکے۔

اس کے بعد یہ گیس پانی میں مکس ہوتی ہے اور بعد ازاں ایک ہزار میٹر گہرائی میں ایک چٹان میں نصب کردی جاتی ہے تاکہ اسے ٹھوس شکل دی جاسکے۔

کمپنیوں کو توقع ہے کہ اس طرح کی ٹیکنالوجی موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ میں ایک اہم ذریعہ ثابت ہوسکے گی مگر ناقدین کا کہنا تھا کہ یہ ٹیکنالوجی بہت مہنگی ہے اور اسے بڑے پیمانے پر استعمال کرنے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔

Comments

- Advertisement -