سائنسی ترقی نے انسان کو امراض، قحط، سفری دشواریوں پر بھی تو قابو پانے کا ہنر سکھا دیا، لیکن ایسے کئی قدرتی مظہر ہیں، جن سے مقابلہ انسان کے لیے ممکن نہیں.
ایسا ہی ایک آفت زلزلے بھی ہیں، جنھوں نے انسانی تاریخ میں تباہ کاریوں کی ہول ناک داستان رقم کیں، پورے پورے شہر زمین بوس ہوگئے، تہذیبیں تہس نہس ہوگئیں، داستانیں مٹ گئیں۔
کسی زمانے میں زلزلے کے جھٹکوں سے طرح طرح کے قصے کہانیاں، اساطیر اور توہمات جڑے تھے، کہیں اسے کسی بیل کے سینگ سے جوڑا جاتا، کبھی کسی چھپکلی سے۔ بہت سی قوموں میں یہ خیال راسخ تھا کہ یہ خدا کا قہر ہے.
یونان سے تعلق رکھنے والے ممتاز فلسفی افلاطون اور ارسطو نے بھی اس ضمن میں اظہار خیال کیا، ان کے نزدیک زمین کی تہوں میں موجود ہواگرم ہوکر زمین کے پرتوں کو توڑ کر باہر آنے کی کوشش کرتی ہے.
سائنسی ترقی کے بعد انسان اب اس مظہر کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکتا ہے اور اس ضمن میں بساط بھر احتیاطی تدابیر اختیار کرسکتا ہے۔
سائنسی نقطہ نظر
سائنس دانوں زیر زمین پلیٹوں اور آتش فشاؤں کو اس کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں. ان پلیٹس کو ٹیکٹونک پلیٹس کہا جاتا ہے، ان کے نیچے میگما نامی پگھلا ہوامادہ حرکت کرتا ہے، جس کی حدت سے زمین کی اندرونی سطح میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے.
ان ہی پلیٹس میں جنم لینے والی حرکت اور ٹکراؤں کے باعث یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہیں.
یہ ٹوٹنے ہوئے ٹکڑے جب اوپر کی سمت اٹھتے ہیں، جو زمین پر ارتعاش یا زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوتے ہیں. زلزلے کی شدت کا انحصار بھی میگما کی حدت اور ٹوٹ پھوٹ ہی پر ہوتا ہے.
آتش فشاں میں ہونے والے دھماکوں کے ٹیکٹونک پلیٹس میں لہریں پیدا ہوتی ہیں، ان کے چار اقسام ہیں، جن سے دو لہریں زمیں کی سطح کے ساتھ ساتھ، جب کہ دیگر دو (پرائمری ویو، سیکنڈری ویو) زیر زمین سفر کرتی ہیں.
پرائمری لہریں، جن کی ماہیت آواز کی لہروں کے مانند ہوتی ہے، وہ زیر زمین چٹانوں گزر جاتی ہیں، البتہ سیکنڈری ویوز جب چٹانوں سے گزرتی ہے، تو ان سے زلزلے جنم لیتے ہیں.
زیر سمندر آنے والے زلزلے بھی ہول ناک تباہی لاتے ہیں. ان سے سمندری طوفان اور سیلابی کا خطرہ جنم لیتا ہے. ایسے زلزلوں سے جنم لینے والے لہریں سطح سمندر پر پانچ سو سے ایک ہزار کلومیٹر کی رفتار سے تباہی پھیلا سکتی ہیں.
کیا زلزلے سے بچاؤ ممکن ہے؟
جدید ترین سائنسی تحقیق اور احتیاطی تدابیر کے باوجود اس قدرتی آفت پر پوری طرح قابو پانا، اس کی شدت کم کرنا کرنا مشکل ہے.
البتہ اس کی پیش گوئی سے متعلق حالیہ برسوں میں ہونے والی ریسرچ سے نئے در وا ہوئے ہیں.
پیشگی اطلاع کے بعد اختیار کی جانے والی احتیاطی تدابیر، شہریوں کی تربیت اور زلزلے کا مقابلہ کرنے والا انفرا اسٹرکچر اس کے نقصان کو بہت حد تک کم کرسکتا ہے.
بدقسمتی سے پاکستان میں اس ضمن میں جامع اور طویل المدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔