تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

بحیرۂ کیسپیئن اور اس کے پانچ دعوے داروں کی دل چسپ کہانی

وسطِ ایشیا اپنے قدرتی وسائل، خاص طور پر تیل اور گیس کے ذخائر کے لیے بھی دنیا میں مشہور ہے اور بحیرۂ کیسپیئن بھی اسی میں شامل ہے، لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ سمندر نہیں‌ بلکہ دنیا کی سب سے بڑی جھیل ہے جس کا پانی نمکین ہے۔

بحیرۂ کیسپیئن کو بظاہر اپنی اسی خاصیت کی وجہ سے سمندر تصور کیا جاتا ہے، مگر اس کی ایک وجہ اور بھی ہے!

یہ بھی جان لیجیے کہ 90 کی دہائی سے قبل اس آبی ذخیرے پر حق جتانے والے ممالک صرف دو تھے یعنی روس اور ایران، لیکن سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا تو آزر بائیجان، ترکمانستان اور قازقستان جیسی ریاستیں اس بحیرہ سے متصل ہوگئیں اور انھوں نے بھی اس پر اپنا حق جتایا۔

بحیرۂ کیسپیئن 1000 کلو میٹر طویل اور 435 کلو میٹر چوڑا سمندر ہے جس سے فائدہ اٹھانے کے لیے روس اور ایران کے بعد دیگر تین وسط ایشیائی ریاستیں‌ بھی دعویٰ کر بیٹھیں اور یوں یہ پانچ ملکوں کے مابین متنازع ٹھہرا۔

ان ممالک نے جب اس کا حل نکالنے کے لیے مذاکرات شروع کیے تو ایک دل چسپ اور اہم سوال یہ بھی سامنے آیا کہ یہ سمندر ہے یا جھیل؟

بعض ماہرینِ ارضیات کے مطابق یہ سمندر ہے اور بعض‌ کے نزدیک جھیل، لیکن اصل مسئلہ ان ماہرین کا نہیں‌ تھا بلکہ عالمی اصولوں اور معیار کے مطابق سمندر اور جھیل کو ایک ایسی آبی اصطلاح کے طور پر دیکھا جاتا ہے جن کے مفہوم الگ الگ ہیں اور اسی بنیاد پر ممالک کے مابین اس آبی ذخیرے اور اس کے وسائل سے استفادہ کرنے کے طریقے پر عمل کیا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ میں سمندر سے متعلق عمومی قوانین میں ساحل، سمندر اور جزائر، آبی حیات اور قدرتی وسائل پر حق، حدود اور گنجائش الگ جب کہ جھیل کے لیے قوانین اور اصول مختلف ہیں اور اسی لیے یہ ممالک بھی اس کی حیثیت پر الجھے رہے۔

پانچ ممالک کے سربراہوں نے مذاکرات کے دوران بحث کے بعد طے کیا کہ اسے سمندر قرار دے دیا جائے جس کے بعد اس کی سطح بین الاقوامی پانی کہلائے گی اور اس کا نچلا حصہ ہر ایک ملک کو اس کی علاقائی حدود کے حساب سے دے دیا جائے گا جس سے وہ بھرپور استفادہ کرسکتا ہے۔

بحیرۂ کیسپیئن دراصل رقبے اور حجم کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی جھیل ہے جسے سمندر تصور کرنے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ جب رومی پہلی مرتبہ اس علاقے میں پہنچے اور اتنی بڑی جھیل کا پانی چکھا تو اسے نمکین پایا اور خیال کیا کہ یہ سمندر ہے۔ اسی وقت سے اسے دنیا بھر میں‌ سمندر مانا جاتا ہے۔

بحیرۂ کیسپیئن کی حیثیت پر یہ پانچ ممالک تو متفق ہوگئے، لیکن ماہرینِ ارضیات اس سے اختلاف کرتے ہیں، البتہ جسیم اور طویل رقبے پر پھیلا ہوا یہ نمکین پانی خود اس بارے میں‌ خاموش ہے۔

Comments

- Advertisement -