اسلام آباد: پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چئیرمین میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمان نے انٹرنیٹ کی بندش کے معاملے پر کہا ہے کہ سب میرین کیبل کو شارک نہیں کاٹ سکتی۔
سینیٹر پلوشہ خان کی زیرِ صدارت قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کا اجلاس ہوا جس میں وزارت آئی ٹی اور پی ٹی اے کی انٹرنیٹ میں خلل پر بریفنگ دی جبکہ چیئرمین پی ٹی اے اور رہنما جے یو آئی (ف) کامران مرتضیٰ کے درمیان انٹرنیٹ کی بندش پر مکالمہ ہوا۔
اجلاس میں رکن کمیٹی نے کہا کہ ڈاؤن لوڈ اسپیڈ ٹھیک ہے مگر ایپلیکیشن نہیں چل رہی جبکہ وائس نوٹ بھی نہیں جا رہے۔ اس پر چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ پاکستان میں 7 سب میرین کیبلز ہیں جبکہ 4 سے 5 مزید سب میرین کیبلز اور آ رہی ہیں، 2 کیبل بچھانے کا کام اس سال مکمل ہو جائے گا۔
میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمان نے کہا کہ اس وقت دنیا میں انٹرنیٹ اسپیڈ کے لحاظ سے 97ویں نمبر پر ہیں، سب میرین کیبل کو شارک نہیں کاٹ سکتی۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی اے کو روزانہ سوشل میڈیا مواد کی 500 شکایات موصول ہوتی ہیں جبکہ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو مواد بلاک کرنے کی درخواست کرتا ہے، پلیٹ فارمز 80 فیصد مواد بلاک کر دیتے ہیں مگر 20 فیصد بلاک نہیں کیا جاتا، رولز میں لکھا ہے کہ وزارت داخلہ پی ٹی اے کو ہدایت دے سکتا ہے۔
اس پر کامران مرتضیٰ نے سوال اٹھایا کہ قانون میں نہیں لکھا تو آپ انٹرنیٹ کیسے بلاک کر سکتے ہیں؟ چیئرمین پی ٹی اے نے جواب دیا کہ اگر یہ غلط ہے تو حکومت 9 سال سے ہم سے انٹرنیٹ کیوں بند کرواتی ہے؟ میں تاریخ اور وقت بتا سکتا ہوں کب کب انٹرنیٹ بند ہوا۔
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ہم حکومت نہیں بلکہ ہم پارلیمان ہیں۔ اس پر میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمان نے کہا کہ آپ سب کبھی کبھی حکومت میں رہے۔
اجلاس میں سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ رولز میں بھی صرف مواد کا ذکر موجود ہے۔
اسپیشل سیکرٹری وزارت آئی ٹی نے بریفنگ دی کہ اگر حکومت کہے کسی علاقے میں تمام آن لائن مواد کو بلاک کرنا ہے، کسی علاقے میں تمام آن لائن مواد کو انٹرنیٹ بند کر کے ہی بند کیا جاتا ہے۔
چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ 2016 سے جب بھی وزارت داخلہ کا خط آتا ہے انٹرنیٹ بند ہوتا ہے، میرے آنے سے پہلے پریکٹس چلتی رہی ہے، آج پہلی بار پتا چلا کہ انٹرنیٹ کی بندش غلط ہوتی ہے، اس حوالے سے حتمی لیگل رائے وزارت قانون اور وزارت داخلہ دے سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے حکم پر کئی بار سوشل میڈیا ایپس بند کی گئیں، 8 فروری کو الیکشن کے روز بھی انٹرنیٹ کی بندش غلط تھی؟ سپریم کورٹ کے حکم پر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا اپلیکیشنز بند ہوتی ہیں۔
اس پر سیکرٹری آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام نے بتایا کہ رولز بنے ہوئے کئی سال ہوگئے ہیں۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے سوال اٹھایا کہ کیا رولز ایکٹ سے آگے جا سکتے ہیں؟ اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے تو کیا وزارت نے نظرثانی دائر کی؟
سینیٹر ہمایوں سعید نے بھی سوال اٹھایا کہ کیا وزارت کا یہ کام نہیں کہ سپریم کورٹ کو بتائے کہ یہ چیز ایکٹ یا رولز میں نہیں ہے؟
اجلاس میں چیئرمین پی ٹی اے کا کہنا تھا کہ وی پی این کی بندش کے معاملے پر ہم نے اسٹینڈ لیا ہے، میں نے وی پی این بند نہیں ہونے دیے، وی پی این سروس پروائیڈرز کی رجسٹریشن کا عمل 19 دسمبر کو شروع کیا گیا، 2 انٹرنیٹ سروس پروائیڈرز نے لائسنس کی درخواست دی ہے جبکہ امید ہے بڑی تعداد میں درخواستیں آئیں گی۔
میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمان کا کہنا تھا کہ وی پی این سروس پروائیڈرز کے حوالے سے پاشا کے ساتھ مشاورت کی گئی، پاشا سے درخواست کی کہ دنیا کا کوئی ماڈل اٹھا کر لے آئیں۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ بلوچستان کے بچوں نے پڑھنا ہے، کوئٹہ کے کچھ علاقوں کے علاوہ بلوچستان بھر میں انٹرنیٹ بند ہے۔
اس پر چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ بلوچستان میں ڈیجیٹل ہائی وے بنانا پڑے گا، انٹرنیٹ کی فراہمی کیلیے ڈیجیٹل ہائی وے بنانے پڑیں گے، جب تک ڈیجیٹل ہائی وے نہیں بنائیں گے انٹرنیٹ ٹھیک نہیں ہوگا، صوبائی حکومتوں سے درخواست کریں سہولت فراہم کریں، یہاں کام شروع کرتے ہیں تو لوگ عدالت میں چلے جاتے ہیں۔