مرزا غالب نے اپنا شعر اس مصرعِ ثانی ’’بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے‘‘ کے ساتھ باندھا تھا، مگر پاکستانی کرکٹ ٹیم نے اپنی ہی میزبانی میں آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے ایک میچ میں جس بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، اس نے ہمیں مرزا غالب کے اس مشہور شعر کے مصرع میں تحریف کرنے پر مجبور کر دیا۔
پاکستان کو 29 سال بعد کسی آئی سی سی ایونٹ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ روایتی دشمنی میں کھیل کے میدان میں بھارت نے ہمیں اس سے محروم کرنے کے لیے کئی ہتھکنڈے آزمائے جس میں ہمارا روایتی حریف تو ناکام ہوا لیکن ہمارے اپنوں نے جس بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، اس کے بعد ہمارے ذہن میں ایک بہت ہی عامیانہ شعر کا یہ مصرع ابھرا کہ ’’ہمیں تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دَم تھا۔‘‘
چیمپئنز ٹرافی کا شور کئی ماہ سے ہو رہا تھا جس کے میچز اب بھی جاری ہیں لیکن میزبان اور دفاعی چیمپئن صرف پانچ روز ہی میں ہی اس میگا ایونٹ سے ایسے باہر ہوا ہے جیسے مکھن سے بال یا دودھ سے مکھی نکال دی جائے۔
پہلے نیوزی لینڈ اور پھر بھارت سے شرم ناک اور یک طرفہ شکستوں کے بعد قومی ٹیم خالی ہاتھ خاموشی سے وطن واپس لوٹ چکی ہے۔ میگا ایونٹ سے قبل ٹیم اور بورڈ میں جتنا شور بپا تھا اب اتنا ہی سکوت طاری ہے۔ شور مچ رہا ہے تو شائقین کرکٹ اور تجزیہ کارروں کے بحث ومباحثے میں، لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ میں یہ خاموشی کسی آنے والے طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ یہ خاموشی کیا طوفان اٹھاتی ہے یا سیدھے سادے الفاظ میں اس شکست کا ملبہ یا نزلہ کس پر گرایا جاتا ہے وہ وقت دور نہیں جب یہ سب آشکار ہو جائے گا۔
چیمپئنز ٹرافی سے قبل باصلاحیت نوجوان اوپنر صائم ایوب اور پھر فخر زمان کا زخمی ہوکر میگا ایونٹ سے باہر ہونا یقینی طور پر پاکستان کے لیے سب سے بڑا شاک تھا لیکن انجریز کھیل کا حصہ ہیں۔ صائم ایوب کے بعد فخر زمان کے زخمی ہونا گرین شرٹس کے ذلت آمیز طریقے سے ٹورنامنٹ سے باہر ہونے کا جواز نہیں بنتا کیونکہ دیگر ٹیموں کے اہم کھلاڑی بھی زخمی ہوئے بلکہ آسٹریلیا کے تو ایک دو نہیں کپتان سمیت چار کھلاڑی میگا ایونٹ سے باہر ہوگئے لیکن ان کی جگہ آنے والوں نے انگلینڈ کے خلاف جیسی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اس سے یہ کمی ظاہر نہ ہوئی۔ یہاں نااہلی ثابت ہوتی ہے ہماری ٹیم منیجمنٹ کی جنہوں نے اپنی پوری بینچ نہیں بنائی اور کسی کھلاڑی کا متبادل تک تیار نہیں کر سکے۔
چیمپئنز ٹرافی کے لیے تمام ٹیموں نے کئی ہفتے قبل اپنے اسکواڈز کا اعلان کر دیا تھا، لیکن میزبان پاکستان نے آئی سی سی کی ڈیڈ لائن سے کچھ وقت قبل ہی 15 رکنی اسکواڈ کا اعلان کیا۔ اسکواڈ کے اعلان میں اتنی تاخیر کے باعث سب کو توقع تھی کہ سلیکشن کمیٹی میگا ایونٹ کے لیے گوہر نایاب کھلاڑی سامنے لائے گی، لیکن جب اسکواڈ کا اعلان کیا گیا وہ بھی صرف ایک پریس ریلیز کے ذریعہ۔ یہ اعلان کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مترادف تھا اور ایسے ایسے نام سامنے آئے، جو وہم وگمان میں بھی نہ تھے۔ سابق کرکٹرز تو اس کو سفارش اور پیراشوٹ سلیکشن بھی کہنے سے نہ کترائے۔
جدت جہاں تمام شعبوں کو تبدیل کر رہی ہے، وہیں کرکٹ کو بھی تبدیل کر رہی ہے۔ اب کرکٹ تیز رفتار ہونے کے ساتھ کیلکولیٹڈ گیم بن چکا ہے۔ آدھے تیتر اور آدھے بٹیر والا زمانہ گیا، اب ہر پوزیشن کے لیے اسپیشلسٹ درکار ہوتے ہیں۔ سب کو توقع تھی کہ چیمپئنز ٹرافی پاکستان کی سر زمین پر ہو رہی ہے اور تمام ٹیمیں اپنے اسکواڈ میں دو، تین اور چار اسپنرز ساتھ لا رہی ہیں تو ہماری ٹیم جو ہوم گراؤنڈ پر کھیل رہی ہے اور حال ہی میں انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کو اسپن اسکواڈ سے زیر کیا تو لازمی اس میں یہ اسپنرز شامل ہوں گے لیکن جب اعلان ہوا تو صرف ایک اسپیشلسٹ اسپنر اور ایک ہی اوپنر دیکھ کر سب حیران رہ گئے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان چیمپئنز ٹرافی سے اسی وقت باہر ہو گیا تھا جب ان نادر اور نایاب کھلاڑیوں پر مشتمل اسکواڈ کا اعلان کیا گیا، جس میں صرف ایک اسپنر اور ایک اسپیشلسٹ اوپنر کے ساتھ اعلان کیا گیا۔ شائقین کرکٹ تو ٹھہرے جذباتی لیکن برسوں اس میدان میں کھیلنے والے سابق کرکٹرز بھی اس اعلان پر انگشت بدنداں ہوتے ہوئے بار بار اسکواڈ کو متوازن کرنے کے لیے مزید ایک اور اسپیشلسٹ اوپنر اور اسپنر کو شامل کرنے کا مشورہ دیتے رہے لیکن ہماری سلیکشن کمیٹی نہ جانے جاگتی آنکھوں کیا خواب دیکھ رہی تھی کہ اسپنرز کی مدد سے ہوم گراؤنڈ پر حالیہ کامیابیاں سمیٹنے کے باوجود ان فاسٹ بولرز پر تکیہ کیا جن کی وجہ سے ہم گزشتہ سوا سال میں ایشیا کپ، ون ڈے ورلڈ کپ اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے پہلے مرحلے میں اسی انداز سے ذلت آمیز طریقے سے باہر ہوئے تھے۔
ٹی 20 ورلڈ کپ میں امریکا سے غیر متوقع شکست اور میگا ایونٹ سے اخراج کے بعد چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے دھواں دھار پریس کانفرنس کرکے ٹیم میں بڑی سرجری کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن سرجری کیا ہوتی، اس کی جگہ پاکستان ٹیم قوم کو ایک اور نیا زخم دے گئی ہے۔
ورلڈ کپ 2023 کی شرمناک شکست کے بعد ٹیم میں بڑی تبدیلیاں ہوئیں۔ کئی بڑے نام والے کھلاڑیوں کو ڈراپ کر کے دورہ آسٹریلیا کے لیے ون ڈے میں نئے کھلاڑیوں کو اسکواڈ میں شامل کیا گیا اور ان میں سے کئی نے کارکردگی دکھائی اور 22 سال بعد ان کی سر زمین پر ون ڈے سیریز جیتی۔ اس کے بعد جنوبی افریقہ کو اسی کے میدانوں میں وائٹ واش کیا لیکن جب اپنے ہوم گراؤنڈ پر چیمپئنز ٹرافی کا موقع آیا تو نہ جانے کس بقراط نے مشورہ دیا یا کہیں سے فون آیا کہ آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کو ان کی سر زمین پر ناکوں چنے چبوانے والے ان کھلاڑیوں میں سے بیشتر کو باہر کر کے اور وننگ کمبی نیشن توڑ کر اچانک کئی سال سے ٹیم سے باہر فہیم اشرف اور خوشدل شاہ کو لایا گیا اور پھر نتیجہ سب نے ہی دیکھ لیا۔
اس ذلت آمیز انداز سے ہوم گراؤنڈ پر ہی ایونٹ سے باہر ہونے پر کوئی ذمہ دار شرم تک محسوس نہیں کر رہا۔ لگتا ہے کہ سب کو تو سانپ سونگھ گیا ہے لیکن ہیڈ کوچ جو میگا ایونٹ کے دوران بھی نام نہاد فاسٹ ٹرائیکا سے جیت کی آس لگائے بیٹھے تھے اب پریس کانفرنس میں بھی ڈھٹائی سے ان ناکام کھلاڑیوں کا دفاع کر رہے ہیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کا تسلسل کے ساتھ آئی سی سی ایونٹ سے اس طرح ذلت آمیز اخراج میں کھلاڑیوں سے زیادہ پاکستان کرکٹ بورڈ سمیت ٹیم منیجمنٹ، سلیکشن کمیٹی کی قابلیت اور پالیسیوں پر سوال اٹھاتا ہے۔ ملک میں سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ چیئرمین بورڈ کی تبدیلی، ان کے بدلتے ہی ٹیم منیجمنٹ کی تبدیلیاں، پالیسیوں میں عدم تسلسل۔ قومی مفاد سے زیادہ ذاتی مفادات اور انا نے آج قومی ٹیم کو اس جگہ پہنچا دیا ہے جہاں دنیائے کرکٹ کے بڑے کھلاڑی سابقہ عالمی چیمپئن کی حالت زار پر افسوس کرنے کے ساتھ اب پاکستان ٹیم کا شمار بنگلہ دیش اور زمبابوے سے بھی گئی گزری ٹیموں میں کر رہے ہیں۔
اس وقت سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ٹیم میں اب بھی سدھار کی گنجائش ہے؟ تو اس کا جواب ہے بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے، اگر اخلاص اور قومی جذبے کے ساتھ کوششیں کی جائیں تو اندھیرے اب بھی روشنی میں بدل سکتے ہیں۔ غلطیوں سے سیکھنا باشعور قوموں کا شعار ہے۔ ہم بہت غلطیاں کرچکے، اگر اب بھی غلطیاں نہ سدھاریں تو کرکٹ کا حال بھی عنقریب قومی کھیل ہاکی جیسا ہوگا اور اگر ایسا ہوا تو شاید اچھا نہ ہو کیونکہ فرقہ واریت، لسانیت، صوبائیت اور سیاسی تفریق میں تقسیم اس قوم کو صرف ایک چیز ہی جوڑتی ہے اور وہ ہے کرکٹ۔ تو کرکٹ کو بچائیں ملک کے اتحاد کو بچائیں، پھر چاہے اس کے لیے بے رحمانہ اور سخت فیصلے کیوں نہ کرنے پڑیں۔ کاغذی ہیروز سے دامن چھڑا کر ایسے باصلاحیت لوگوں کو آگے لائیں جو پاکستان ٹیم کا مستقبل روشن کر سکیں کیونکہ پاکستان کرکٹ ہے تو کرکٹ میں بڑے نام بھی ہیں۔