اسلام آباد : جمیعت علما اسلام ف کے سربراہ مولانافضل الرحمان کے مطالبے پر آئینی ترامیم کے مسودے میں متعددتبدیلیاں کی گئیں، جس کے اہم نکات سامنے آگئے۔
تفصیلات کے مطابق 26 ویں آئینی ترامیم کے مجوزہ اہم نکات سامنے آگئے ، جمیعت علما اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے مطالبے پراصل مسودےمیں متعددتبدیلیاں کی گئیں، ذرائع نے بتایا کہ بلاول بھٹو کی کوششوں سےکم سےکم ایجنڈےپر حکومت اور مولانامیں متعددنکات پراتفاق ہوگیا۔
مولاناکے مطالبے پر آرٹیکل 200،51،ملٹری کورٹس سےمتعلق ترامیم واپس لی گئی ، ججز کی مدت ملازمت 68 سال تک بڑھانے کی شق واپس لےلی گئی۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان اور حکومت میں آئینی عدالت کے قیام پر اتفاق رائے ہوگیا، آئینی عدالت کا سربراہ سپریم کورٹ سے ریٹائرڈ جج ہوگا، آئینی عدالت کےسربراہ کا تقررپہلی باروزیراعظم کی ایڈوائس پرصدر کرینگے۔
ذرائع نے کہا کہ آئینی عدالت کے باقی ججز کا تقرر پانچوں ہائیکورٹس سےاہلیت کی بنیاد پر ہو گا، آئینی عدالت پانچ سے سات ججز پر مشتمل ہو گی اور آئینی عدالت آئینی امور سے متعلق مقدمات سنے گی۔
ذرائع نے بتایا کہ مولانافضل الرحمان اورحکومت میں آرٹیکل 63 اےمیں ترمیم پر اتفاق ہوا، جس کے تحت فلور کراسنگ پرووٹ شمار تصورہو گا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ 19ویں آئینی ترمیم کےخاتمے، 18ویں آئینی ترمیم کی اصل شکل میں بحالی سمیت ججز تقرری کیلئےجوڈیشل کمیشن ،پارلیمانی کمیٹی کو یکجا کرنے پر اتفاق ہوگیا ہے۔
ذرائع کے مطابق نگراں وزیراعظم کے تقرر کیلئےالیکشن کمیشن کا اختیار ختم کرنے پر اتفاق ہوا، نگراں وزیراعظم کا تقرر 12رکنی پارلیمانی کمیٹی کرےگی، کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن اراکین کی تعداد مساوی ہو گی، کمیٹی میں اتفاق نہ ہونےپرنگراں وزیراعظم کاتقررجوڈیشل کمیشن کرےگا۔
ذرائع کا بتانا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کا تقرر جوڈیشل کمیشن کے ذریعے کرنے اور چیف الیکشن کمشنر کےتقرر کیلئےوزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کا اختیار ختم کرنے پر بھی اتفاق ہوا۔
ذرائع نے کہا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے تقرر کیلئے پینل مانگا جائے گا، چیف جسٹس کے تقرر کیلئے پینل 5 ججز پر مشتمل ہو گا، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر پارلیمانی کمیٹی کرے گی جبکہ ہائیکورٹس کے ججز کی روٹیشن سے متعلق ترمیم نہ لانے کا فیصلہ کیا گیا۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم کامسودہ صرف بلاول بھٹو ،مولانا فضل الرحمان کو شیئر کیا گیام 26ویں آئینی ترمیم کو عجلت میں منظور نہیں کرایا جائے گا، جن پہلوؤں پر اتفاق نہیں انہیں مسودےکاحصہ نہیں بنایا جائے گا، متفقہ پہلوؤں پر مبنی آئینی مسودہ آئندہ ہفتےتیارکیا جائے گا۔