چھاوا، ہندوستانی فلم بینوں میں بہت مقبول ہورہی ہے اور ریلیز کے بعد ہی ایک ہفتے میں 200 کروڑ سے زائد کا بزنس کرنے والی اس فلم سے پانچ سو کروڑ کا ہندسہ عبور کرنے کی توقع کی جا رہی ہے۔
یہ فلم چھترپتی سمبھاجی مہاراج (Chhatrapati Sambhaji Maharaj) کو ایک دلیر جنگجو اور سرفروش کے طور پر پیش کرتی ہے اور مغل شہنشاہ اورنگزیب کو ظالم اور ہندوؤں سے نفرت کرنے والے حکم راں کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ بھارت میں اس فلم نے دھوم مچا دی ہے، لیکن کیا یہ فلم سماج میں نفرت اور تعصب کو بڑھا رہی ہے؟ بعض بھارتی تاریخ داں اور سنجیدہ و باشعور طبقہ سمجھتا ہے کہ اس قسم کی فلموں سے ہندوستان میں نفرت اور مختلف مذہبی و سماجی طبقات میں غلط فہمیاں پیدا ہورہی ہیں۔ البتہ فلم سازوں کا دعویٰ ہے کہ اس تاریخی پس منظر پر مبنی فلم کو تاریخ دانوں اور ماہر محققین نے بھی ریلیز سے قبل دیکھا ہے۔ سینسر کے مراحل میں کئی تبدیلیوں کے ساتھ یہ وضاحت بھی کرنے کو کہا گیا کہ اس فلم کا مقصد کسی کو بدنام کرنا اور حقائق کو مسخ کرنا نہیں ہے۔
فلمی ناقدین کہتے ہیں کہ ہندوستان کی تاریخ کے کئی جنگجو کردار ایسے ہیں جن کی دلیری و جرأت اور سرفروشی کی داستان کو بڑے پردے پر پیش کرنے کے لیے بھارتی فلم ساز تحقیق سے زیادہ مسالے کی ضرورت محسوس کررہا ہے اور ملک میں مذہبی انتہا پسندی کو ایک موقع کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اس فلم میں بھی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔
یہ درست ہے کہ اب سوشل فلموں کا زمانہ نہیں رہا اور آرٹ سنیما سے سرمایہ تو شاید نکالا جا سکے، مگر کمائی ممکن نہیں ہے۔ ان حالات میں کمرشل اور مسالا فلمیں ہی ہیں جو بزنس نہیں بلکہ خوب بزنس کرتی ہیں، مگر فلم جیسے مؤثر میڈیم کو کسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔
برصغیر میں مغلیہ حکم رانوں اور دوسرے مذاہب اور قوم پر مشتمل چھوٹی بڑی ریاستوں کے درمیان جنگ و جدل اور سیاسی کشمکش پر بھی فلمیں بنائی گئی ہیں اور اکثر بہت کام یاب بھی رہی ہیں۔ ‘چھاوا ‘ بھی ایکشن اور تاریخی موضوع پر ایک فلم ہے جس کے ہدایت کار لکشمن اتیکر ہیں۔ فلم ‘میڈ ڈوک فلمز’ کے بینر تلے ریلیز کی گئی ہے۔ فلم کی کہانی مراٹھا چھترپتی سمبھاجی کے دور کے گرد گھومتی ہے۔ اس میں بولی وڈ کے وجیہ صورت اداکار وکی کوشل اور ساؤتھ انڈین فلم انڈسٹری کی سپر اسٹار اداکارہ رشمیکا مندانا نے اپنی اداکاری سے فلم بینوں کو متاثر کیا ہے۔ فلمی مبصرین کے مطابق فلم کے آخری 45 منٹ حیرت انگیز ہیں جس کے ساتھ فلم کا کلائمکس شائقین کو جذباتی کر دیتا ہے۔ فلم کا ایک اور تاریخی اور مرکزی کردار مغل شہنشاہ اورنگزیب ہیں اور یہ کردار اکشے کھنہ نے نبھایا ہے۔ فلم کی موسیقی اے آر رحمان نے ترتیب دی ہے۔
فلم اور سنیما میں دل چسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ ماضی میں بولی وڈ میں ہند و مسلم اتحاد اور یکجہتی کا درس و پیغام دیتی فلمیں بنائی جاتی رہی ہیں۔ اس کی یہاں ایک نہایت خوب صورت مثال سن 1959 کی فلم دھول کے پھول کا یہ نغمہ ہے، ‘تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا، انسان کی اولاد ہے، انسان بنے گا‘۔ بولی وڈ کی فلمیں کبھی فرقہ پرستی اور نفرت کے ماحول کے خلاف مؤثر پیغام دیا کرتی تھیں۔ آج اس کے برعکس صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے۔ موجودہ دور کے فلم ساز اور ہدایت کاروں کی طرف دیکھیں تو وہ یہ کہتے ہیں کہ فکشن اور فلم کی دنیا میں شخصیات کو اسی طرح نہیں پیش کیا جاسکتا، جیسا وہ تاریخ کی مستند کتابوں میں موجود ہیں، لیکن یہ بھی قابل توجہ ہے کہ واقعات کو فلمانے میں حقائق کو مسخ نہیں کیا جانا چاہیے۔
چھاوا، وہ فلم ہے جو ہندو حکم راں سمبھاجی کے شیوا جی مہاراج کی موت کے بعد مراٹھا بادشاہت کو سنبھالنے کے بعد اورنگزیب سے جنگ اور پھر موت تک کے واقعات کو ہمارے سامنے پیش کرتی ہے۔ ایک قابل جانشین بننے کے لیے سمبھاجی کی کوشش اور مراٹھا عروج کی خواہش اس کا موضوع ہے۔ سمبھاجی کا دور مغلوں، شیدیوں، میسور اور پرتگیزیوں سے لڑائی میں گزرا۔
ہندو حکم راں سمبھاجی کے بارے میں مراٹھا مؤرخین اور مصنفین نے لکھا ہے کہ وہ کئی درباریوں کے وحشیانہ قتل اور پھانسیوں کے ذمہ دار تھے، انھوں نے اقتدار میں آکر مراٹھا شاہی دربار کے اہم ارکان کو بھی پھانسی دی تھی جس کے بعد انھیں انتظامی کمزوری
اور مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اسی کے بعد سمبھاجی کے خلاف اندرونی صفوں میں ایک بڑی سازش شروع ہوئی۔ مصنفین کے مطابق آخر میں اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں سمبھاجی نے دھوکہ کھایا۔ یہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے کہ شیوا جی انھیں اقتدار نہیں دینا چاہتے تھے اور اس کی وجہ بعض غیر ذمہ داریاں اور ان کی جنسی بے راہ روی بھی تھی۔
چھاوا میں سمبھاجی اپنے سب سے قابلِ اعتماد کمانڈر اور سرپرست شخصیت ہمبیر راؤ موہتے کی موت کے بعد مشکل کا شکار ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اورنگ زیب کی قید میں اپنی جان کے بدلے سلطنت اور مذہب سے دست برداری کے لیے زور اور تشدد سہتے ہوئے موت کا سامنا کرنے کی وجہ سے انھیں خاص ہندو سماج میں توجہ اور ہمدردی ملی۔ سمبھاجی کی موت نے اس وقت مرہٹوں کو مزید جوش و خروش کے ساتھ اپنی مزاحمت جاری رکھنے کی ترغیب دی، دوسری طرف اورنگ زیب کا مرہٹوں کے خلاف انتقام اور مسلسل جنگ اس کی پوری مغل سلطنت کو کم زور کرنے کا باعث بنا۔ 1689 میں سمبھاجی کی موت کے بعد اورنگ زیب نے دکن کے علاقے میں ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزارا، اور وہاں بھی مراٹھا جنگجوؤں سے الجھے رہے یہاں تک کہ وہ خود بھی لحد میں اتر گئے۔
پاپولر یا مقبول سنیما کے ذریعے پیسہ ہی کمایا جاتا ہے، لیکن بھارتی فلم سازوں میں چند برسوں کے دوران دانستہ کچھ فارمولے استعمال کرنے اور مسالا لگانے کا رجحان بڑھا ہے جس پر تنقید کی جارہی ہے۔ اس فلم میں اورنگزیب کا کردار منفی اور بری طرح مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے اور شاید فلم ساز کو اپنے مقصد میں کام یابی بھی نصیب ہوئی ہے۔ ماضی کا یہ کردار جسے تاریخ میں سمبھاجی مہاراج کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، شیوا جی مہاراج کا بیٹا تھا۔ مغل شہنشاہ اورنگزیب کو شیوا جی نے مشکل سے دوچار کر رکھا تھا۔ شیوا جی نے اپنی آزاد ریاست کی بنیاد اس وقت رکھی تھی جب ہندوستان کے مغربی حصے میں تین اسلامی سلطنتیں تھیں۔ احمد نگر کی نظام شاہی، بیجاپور کی عادل شاہی اور گولکنڈہ کی قطب شاہی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ تینوں آپس میں لڑتے تھے اور شمال سے مغلیہ حکم راں ان سلاطین کو اپنا تابع فرمان ہونے کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہے تھے تاکہ جنوبی ہند پر غلبہ حاصل کیا جا سکے۔ شیوا جی نے ان حالات میں بیجا پور کے چار پہاڑی قلعوں پر قبضہ کر کے بغاوت کا علم بلند کیا۔ ادھر اورنگزیب ایک طاقت ور فوج کے ساتھ بہت شہرت رکھتے تھے۔
مشہور مؤرخ رابرٹ اورمن کے مطابق اورنگزیب نے شیوا جی کو کچلنے کے لیے اپنی تمام تر طاقت استعمال کی۔ لیکن بھارت میں اورنگزیب کی اس قسم کی فلموں کے ذریعے جو شبیہ پیش کی جارہی ہے، وہ غلط ہے۔ اسے سخت گیر مسلمان اور ہندوؤں کا دشمن بتایا جاتا ہے جس نے کئی منادر گرانے کا حکم دیا اور ہندو عقائد کے مطابق کئی تہواروں یا رسومات پر پابندیاں لگائیں۔ ایک امریکی تاریخ داں آڈرے ٹرسچکی نے اورنگزیب سے متعلق اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ خیال غلط ہے کہ اورنگزیب نے مندروں کو اس لیے مسمار کروایا کیونکہ وہ ہندوؤں سے نفرت کرتا تھا۔ مصنف لکھتی ہیں کہ اورنگزیب کی اس شبیہ کے لیے انگریزوں کے زمانے کے مؤرخ ذمہ دار ہیں جو انگریزوں کی ’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی کے تحت ہندو مسلم مخاصمت کو فروغ دیتے تھے۔ اورنگزیب وہ بادشاہ تھے جس نے 49 سال تک 15 کروڑ افراد پر حکومت کی۔ ان کے دور میں مغل سلطنت تقریباً پورے برصغیر پر پھیل چکی تھی۔
ٹرسچکی یہ بھی لکھتی ہیں کہ ’اورنگزیب کے حکم سے براہ راست چند منادر ہی توڑے گئے۔ ان کے دور حکومت میں ایسا کچھ نہیں ہوا جسے ہندوؤں کا قتل عام کہا جا سکے۔ دراصل، اورنگزیب نے اپنی حکومت میں بہت سے اہم عہدوں پر ہندوؤں کو تعینات کیا۔‘
ادھر ہندو تاریخ داں اور بعض کٹر مذہبی شخصیات نے جہاں شیوا جی کو ایک جرات مند اور باغی حکم راں بتایا ہے، وہیں ان کے تخت سنبھالنے والے سمبھاجی مہاراج کی بھی خوب تعریف کی ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ میں پروفیسر ندیم شاہ کا حوالہ دے کر لکھا گیا ہے کہ وہ شیوا جی کا ایک دوسرا پہلو سامنے رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق آگرہ سے واپس آنے کے بعد بھی مراٹھوں نے مغلوں کی منصب داری قبول کی۔ شیوا جی اور راجہ جے سنگھ کے درمیان اس کے بعد بھی تعلقات رہے۔ شیوا جی کے آبا و اجداد کو شاہجہاں نے منصب دیے تھے۔ شیوا جی کے دادا مغلوں کے منصب دار کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ شیوا جی اور مغلوں کے درمیان اتنے بھی معاندانہ تعلقات نہیں تھے جتنے آج کل پیش کیے جا رہے ہیں۔ لیکن ہندوستان میں تاریخ کو دیکھنے کے بھی مختلف نظریات ہیں۔
بہمنی سلطنت زوال کے بعد پانچوں حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ ان میں سے مغلوں نے پہلے نظام شاہی کو ختم کیا، پھر عادل شاہی کو ختم کیا، پھر قطب شاہی کو ختم کر دیا۔ صرف مراٹھا ہی ان کے ماتحت نہیں تھے۔ اب اورنگزیب بھی شیوا جی کو اپنا منصب دار بنانا چاہتے تھے۔ تاریخ کے ایک اور پروفیسر کدم یہ نہیں سمجھتے کہ شیوا جی کے دادا مغلوں کے منصب دار رہے تھے، بلکہ وہ اس بات کو اس طرح کہتے ہیں کہ وہ نظام شاہی اور عادل شاہی کے منصب دار تھے۔ اس نے نظام شاہی کو مغلوں سے بچانے کی بھی بہت کوشش کی۔ اسی وقت سے مغلوں اور شیوا جی کے خاندان میں دشمنی شروع ہوئی۔
مورخین لکھتے ہیں کہ اورنگزیب نے مرہٹوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہوئے راجہ جے سنگھ کو فوج کے ساتھ دکن بھیجا۔ راجہ جے سنگھ کو کام یابی ملی اور شیوا جی مغلوں کے ساتھ معاہدے پر راضی ہو گئے۔ اس معاہدے کو پورندر معاہدہ کہا جاتا ہے۔ پورندر پونے کے قریب ایک قلعے کا نام تھا جسے مغلوں نے فتح کر لیا تھا۔ اسی مناسبت سے اس معاہدے کو پورندر کے نام سے جانا جاتا ہے۔
چند سال کے دوران بھارت میں مذہبی انتہا پسندی عروج پر پہنچ گئی ہے۔ مہاراشٹر میں حکومت نے ایک خاص ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے اسکول کی نصابی کتب سے انڈیا کے بڑے حصے پر حکم رانی کرنے والے مغلوں کی تاریخ پر مبنی مضامین اور معلومات کو نکال دیا۔ وہاں ہندو حکم راں شیوا جی اور ان کی سلطنت کے بارے میں تعلیم اور آگاہی دینے پر توجہ دی جارہی ہے۔ بھارتی دانش وروں اور حکومت کے بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں بے شمار یادگاریں مغل دورِ میں بنائی گئی تھیں۔ تین صدیوں سے زائد عرصہ کی تاریخ کو مذہبی بنیاد پر یوں اکھاڑ کر پھینک دینے کی کوشش سب کچھ بگاڑ دے گی۔ مغل حکم رانوں کے دور کا تجزیہ ان کی صلاحیت اور کارکردگی کی بنیاد پر کرنا چاہیے۔
تاریخی واقعات پر مبنی کتابوں میں لکھا ہے کہ سمبھاجی کی عمر نو برس سے زیادہ نہیں تھی جب وہ مغل سلطنت کے سیاسی یرغمال بنے اور اس طرح پورندر معاہدے کی پاس داری کی ضمانت طلب کی گئی۔ تاہم وہ وہاں سے فرار ہونے میں کام یاب ہوگئے اور بعد میں اپنے والد کا تخت سنبھالا۔ وہ ایک اسکالر تھے اور کئی زبانیں جانتے تھے۔ انھوں نے تصنیف کا کام بھی کیا اور اورنگزیب کے ہاتھوں اپنی موت کے بعد ہندوستان میں ہندو حکم رانی کی علامت کے طور پر مقبول ہوئے۔
سمبھاجی کی پیدائش 1657 میں پورندر قلعہ میں مراٹھا چھترپتی شیوا جی کے گھر ہوئی۔ سمبھاجی دو سال کے تھے جب ان کی والدہ انتقال کر گئیں۔ نو سال کی عمر میں سمبھا جی کو بطور سیاسی یرغمالی امبر کے راجہ کے ساتھ رہنا پڑا جس کا مقصد ہم اوپر بتا چکے ہیں۔ ان کے والد شیوا جی نے 11 جون 1665 کو مغلوں کے ساتھ پورندر معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔ مؤرخین کے مطابق وہ اپنے والد شیوا جی کے ساتھ 12 مئی 1666 کو آگرہ میں مغل شہنشاہ اورنگزیب کے دربار میں پیش ہوئے تھے اور نظر بندی کے دو ماہ بعد فرار ہونے میں کام یاب ہوگئے تھے۔
اس دور میں اورنگ زیب نے ہر طرف سے مراٹھا سلطنت پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔ سنبھاجی کے لڑاکا مغل فوج کو اپنی گوریلا حکمت عملی سے الجھائے رہے۔ اورنگ زیب کے جرنیل تین سال تک مراٹھا علاقوں پر قبضہ کرنے میں کام یاب نہیں ہو سکے تھے۔
سمبھاجی کو اپنے باپ کی طرف سے ایک نظامِ حکومت وراثت میں ملا تھا اور وہ اپنے والد کی زیادہ تر پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے ریاست کا نظم و نسق ایک کونسل کی مدد سے سنبھالنے میں کام یاب رہے۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے زرعی شعبے میں ترقی کے ساتھ اپنی رعایا کو انصاف دیا۔ لیکن مراٹھا مصنفین ہی انھیں ایک غیر ذمہ دار اور بے راہ رو شخص کے طور پر بھی پیش کرتے ہیں جسے یہ کہہ کر مسترد کیا جاتا ہے کہ ہم تک پہنچنے والے تاریخی واقعات کے ماخذ کم زور اور اکثر واقعات جھوٹے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ انھیں پروپیگنڈہ کہا جاتا ہے اسی طرح اورنگزیب سے متعلق بھی فرضی قصے اور من گھڑت کہانیاں موجود ہیں جنھیں تحقیق کے بغیر فلموں میں بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس قبیل کی فلموں کی فہرست کو اگر چند برسوں کے دوران دیکھا جائے تو سمراٹ پرتھوی راج (اجمیر کے راجا پرتھوی راج چوہان) مراٹھا سپہ سالار تانا جی، رانی پدماوت، تاشقند فائلز، غازی، شیر شاہ وغیرہ شامل ہیں۔