اسلام آباد : سپریم کورٹ میں پنجاب، کے پی میں انتخابات پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا ہے کہ پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں واضح لکھا ہے کہ صدر بھی انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں۔
پانچ رکنی بینچ کی سماعت کے موقع پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ گورنر اپنے حکم میں انتخابات کی تاریخ بھی دے گا، جسٹس منصور نے کہا کہ کیا گورنر تاریخ نہ دے تو الیکشن کمیشن ازخود انتخابات کراسکتا ہے؟
بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے اسے ہی اختیار ہونا چاہیے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین کو بالکل واضح ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں واضح لکھا ہے کہ صدر بھی تاریخ دے سکتے ہیں، پارلیمان کی بصیرت کا کیسے جائزہ لیا جاسکتا ہے؟
بیرسٹرعلی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے گورنرز کو تاریخیں تجویز کررکھی ہیں، الیکشن کمیشن کو ہر وقت انتخابات کیلئے تیار رہنا چاہیے۔
جسٹس محمدعلی مظہر نے کہا کہ کوئی بھی اسمبلی کسی بھی وقت تحلیل ہوسکتی ہے،
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس بنیاد پرانتخابات نہ ہوں کہ پیسے ہی نہیں ہیں۔
جسٹس منصور نے کہا کہ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ صدر مشاورت سے تاریخ دیتا ہے، گورنر مرضی سے؟ گورنر کسی سے تو مشاورت کرتا ہی ہوگا، اگر گورنر ایک ہفتے میں الیکشن کا اعلان کردے تو الیکشن کمیشن کیا کرے گا؟
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ انتخابات کا سارا کام تو الیکشن کمیشن نے کرنا ہے، جسٹس محمدعلی مظہر کا کہنا تھا کہ انتخابات کیلئے شیڈول دیا گیا ہے کہ کس مرحلے کیلئے کتنا وقت درکارہوگا؟
بعد ازاں پنجاب، کے پی میں انتخابات پر ازخود نوٹس کی سماعت کل صبح ساڑھے9بجے تک ملتوی کردی گئی۔
پنجاب کے پی انتخابات: سپریم کورٹ کا 9 رکنی بینچ ٹوٹ گیا
اس سے قبل پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں انتخابات کے لیے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والا 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا ہے تاہم عدالت عظمیٰ کا 5 رکنی بینچ کی سماعت کررہا ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے علاوہ جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی کیس سننے سے معذرت کرلی ہے۔