کراچی: شہر قائد کے علاقے ملیر میں پھیلنے والے چکن گونیا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ آج بھی 82 مریضوں کو مختلف اسپتالوں میں داخل کیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے ملیر میں مبینہ طور چکن گونیا وائرس سے سینکڑوں افراد متاثر ہوگئے۔ اب تک متعدد افراد کو مختلف اسپتالوں میں لایا جاچکا ہے جو جوڑوں کے شدید درد اور تیز بخار میں مبتلا ہیں۔
مزید پڑھیں: چکن گونیا کی علامات اور علاج سے آگاہی حاصل کریں
دوسری جانب محکمہ صحت نے پاکستان میں اس وائرس کی موجودگی کی تردید کردی ہے۔
محکمے کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ گو کہ اس سے قبل پاکستان میں اس وائرس کی موجودگی پائی گئی تھی جس نے کئی افراد کو اپنا نشانہ بنایا تاہم فی الحال اس وائرس کے پھیلنے کی تمام خبریں غلط اور گمراہ کن ہیں۔
ذرائع کے مطابق ماہرین صحت نے مچھر اور مریضوں کے خون کے نمونے لیبارٹری بجھوا دیے ہیں جہاں سے رپورٹ آنے کے بعد ہی باقاعدہ تصدیق کی جاسکے گی کہ آیا یہ چکن گونیا وائرس ہی ہے یا نہیں۔
مزید پڑھیں: مچھروں سے بچنے کے طریقے
اس بیماری سے اب تک ملیر کے علاوہ سعود آباد، لانڈھی اور گڈاپ میں بھی کئی افراد متاثر ہوچکے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں متاثرہ مریضوں کو ادویات کی شدید عدم فراہمی کا سامنا ہے۔
چکن گونیا وائرس ۔ ماہرین کیا کہتے ہیں؟
اے آر وائی نیوز کے پروگرام دا مارننگ شو میں بھی آج میزبانوں اور مہمانوں کا موضوع گفتگو یہی وائرس رہا۔
پروگرام میں طبی ماہرین حکیم آغا عبد الغفار، ڈاکٹر عاطف اور ڈاکٹر یوسف نے شرکت کی۔
سردیوں کے موسم میں بخار اور جسم میں درد کے عام ہونے کی صورت میں کیسے تشخیص کی جائے کہ آیا یہ عام بخار ہے یا چکن گونیا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ماہرین نے واضح طور پر بتایا کہ چکن گونیا کے شکار افراد جوڑوں کے ناقابل برداشت درد کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ عام جوڑوں کا درد ایک یا 2 جوڑوں تک محدود رہے گا، لیکن ایک ساتھ تمام جوڑوں میں ناقابل برداشت اور شدید درد چکن گونیا کی علامت ہے۔
اسی طرح اس وائرس میں ہونے والا بخار بھی بہت تیز کم از کم 104 ڈگری تک ہوتا ہے۔
:سیلف میڈیکیشن سے پرہیز
حکیم آغا عبد الغفار اور ڈاکٹر عاطف کا کہنا تھا کہ ویسے تو سیلف میڈیکیشن یعنی ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر خود سے دوا لینا ایک غلط اور نقصان دہ عمل ہے، تاہم ڈینگی اور چکن گونیا میں اس سے سختی سے گریز کرنا چاہیئے، خاص طور پر اسپرین لینے سے پرہیز کرنا چاہیئے۔
اس کی وجہ بتاتے ہوئے حکیم آغا عبد الغفار کا کہنا تھا کہ اسپرین خون کو پتلا کرتی ہے۔ ڈینگی اور چکن گونیا کے متاثرہ شخص میں ویسے ہی خون کے سرخ خلیات بننے کا عمل کم ہوجاتا ہے اور خون کی کمی واقع ہونے لگتی ہے۔ ایسے میں اسپرین خون کی مقدار اور معیار پر مزید منفی اثر ڈال کر مرض کو جان لیوا بنا سکتی ہے اور مریض کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹر عاطف نے اس وائرس کی ہسٹری بتاتے ہوئے کہا کہ یہ وائرس افریقہ سے آیا ہے۔ اس وائرس کا پہلا کیس سنہ 1959 میں تنزانیہ میں رپورٹ کیا گیا۔ ان کے مطابق پاکستان میں اس مرض کا پھیلاؤ پچھلے 2 سال میں ہوا تاہم اس سے قبل اسے ڈینگی سمجھا گیا اور اس کے لیے ڈینگی کا ہی علاج کیا گیا۔
:بچے اور بزرگ افراد آسان ہدف
اس بارے میں مزید بتاتے ہوئے ڈاکٹر یوسف کا کہنا تھا کہ اس مرض کا آسان شکار 5 سال سے کم عمر بچے اور بزرگ افراد ہیں جن کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے۔ انہوں نے اس وائرس کی ایک اہم علامت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ چھوٹے بچوں میں یہ جلد پر سرخ نشانات یا دھبوں کی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ چھوٹے بچوں کی جلد پر سرخ نشانات خسرہ اور ٹائیفائڈ میں بھی ظاہر ہوسکتے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ ماہر معالجین سے رجوع کیا جائے اور صحیح تشخیص کے بعد درست علاج کیا جائے۔