ایک خیال یہ ہے کہ اردو میں بچّوں کے لیے ادب تخلیق نہیں کیا جارہا یا بہت کم لکھا جا رہا ہے۔ دوسری بات یہ سننے کو ملتی ہے کہ یہ تخلیقات کس معیار کی ہیں اور پھر کیا نثر اور نظم کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرتے ہوئے ہم جدید دنیا کو بھی پیشِ نظر رکھتے ہیں یا نہیں، یہ ایک بحث ہے ہے اور اس پر بات کرتے ہوئے ہمیں کئی دہائیوں کے اوراق الٹنا ہوں گے۔
ہم سب یہ بخوبی جانتے ہیں کہ بچّہ ہر چیز جاننا، سمجھنا اور سیکھنا چاہتا ہے۔ یہ اس کے سیکھنے کی جبلت کا تقاضا ہے۔ لیکن ابتدائی ادوارِ عمر کے بعد ہمیں اپنے تہذیبی رویے اور اپنی ثقافت کو بھی بچّوں میں منتقل کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جس کے لیے ہم ادب کا سہارا لیتے ہیں۔
اگر بات کی جائے تقسیم سے قبل کے برصغیر کی تو نظیراکبرآبادی، سورج نرائن مہر، تلوک چند محروم، علامہ اقبال، اسمٰعیل میرٹھی، مولانا محمد حسین آزاد، مولوی ممتاز علی، محمدی بیگم، سید امتیاز علی تاج، غلام عباس، رگھوناتھ سہائے، حفیظ جالندھری، مولانا عبدالمجید سالک، اخترشیرانی اور مولانا چراغ حسن حسرت نے بچوں کے لیے کہانیاں، نظمیں اور معلومات افزا مضامین دل چسپ انداز میں لکھے تھے۔ ان میں سے کچھ اہلِ قلم نے صرف شاعری جب کہ بعض نے اخلاقی اور دل چسپ کہانیاں، اصلاحی نظمیں اور معلوماتی مضامین بھی تحریر کیے۔
ہمارے میرزا ادیب لکھتے ہیں کہ 1857ء کے بعد کا دور ایک اصلاحی دور تھا، ہماری تحریک آزادی ناکام ہوچکی تھی اور برصغیر کی تمام قومیں اپنی ساری توجہات اصلاح احوال پرمرکوز کر چکی تھیں۔ مصنفین معاشرے کے ذمے دار افراد ہونے کی حیثیت سے بچوں کی بہتر طور پر تربیت کرنا چاہتے تھے اس مقصد کو عملی صورت دینے کی خاطر وہ ایسی نظمیں لکھنے کی کوشش کرتے تھے جنہیں پڑھ کر بچے نیک بنیں اور زندگی کی اچھی قدروں کو عزیز گردانیں، چنانچہ حکیم ایسوپ کی حکایتوں کے انداز میں کافی تعداد میں کہانیاں لکھی گئی تھیں، بعض کہانیوں کے آخر میں نتیجہ لکھا جاتا تھا، اس حصے میں مصنف اپنے پڑھنے والے بچوں سے مخاطب ہو کر اس اخلاقی سبق کو اجاگر کرتا تھا جو اس کی کہانی سے ملتا ہے یا باالفاظِ دیگر ملنا چاہیے۔
جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو بڑوں کے ادب کے ساتھ ساتھ چھوٹوں کے ادب کی بھی ضرورت پیش آنی چاہیے تھی، اور پیش آئی، اس وقت پہلی ضرورت یہ محسوس کی گئی کہ بچوں کے لیے ایسی کتابیں لکھی جائیں جنہیں پڑھ کر بچوں کو تحریک پاکستان، مقاصد پاکستان اور جدوجہد آزادی سے آشنا ہونے کا موقع ملے چنانچہ اس باب میں معلوماتی کتابیں بھی تصنیف ہوئیں اور ایسی کتابیں بھی جو تحریک پاکستان کے احوال و کوائف میں واضح کرتی ہیں، مثلاً زاہد حسین انجم کی ’’پاکستان‘‘ سید ہاشمی فرید آبادی کی ’’پاکستان کی پہلی کتاب، کلیم احمد کی پاکستانی تہذیب کی کہانی، زینت غلام عباس کی دیس ہمارا پاکستان، سید قاسم محمود کی قائد اعظم کا پیغام وغیرہ۔
اب ہم آج کے دور میں دیکھیں تو بچّوں کا ادب بہت کم لکھا گیا اور یہ بہت معیاری بھی نہیں ہے۔ معروف ادیب، نقاد اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر اسد اریب صاحب کا کہنا ہے کہ: ’’جو شاعری بچوں کے لئے اس وقت تخلیق کی جار ہی ہے وہ اخلاقی، مذہبی اور ملّی پروپیگنڈے کی شاعری ہے۔ اس میں بچّوں کی بھولی بھالی معصوم فطرت کی خواہشوں کی کوئی لہر وہر نہیں ملتی۔ نہ پرندے ہیں نہ طوطے، کوّے، بلبلیں نہ چوہے، بلیاں، چوزے اور بطخیں، نہ شرارتیں، شوخیاں اور تحیر ہے، نہ چہلیں۔‘‘
ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے بچّوں کا ادب کم تخلیق کیا گیا ہے جب کہ انسانیت کا مستقبل اور دنیا کی ترقی اب سائنس سے وابستہ ہے۔ اس پہلو پر ہمیں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اب اگر ہم دہائیوں پیچھے چلے جائیں تو معلوم ہوگا کہ ہندوستان میں بچّوں کا اوّلین ماہانہ رسالہ پیسہ اخبار کے مدیر مولوی محبوب عالم نے مئی 1902ء میں شائع کیا تھا۔ جس کا نام تھا ’’بچوں کا اخبار۔‘‘ یہ کثیر الاشاعت ماہنامہ تھا۔ اس کے بعد جو رسالے نکلے ان میں تہذیبِ نسواں کے ایڈیٹر مولوی ممتاز علی (فاضل دیوبند) کا ’’پھول‘‘ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی اشاعت کا آغاز اکتوبر 1909ء میں لاہور سے ہوا۔ اس رسالے کو معروف ادیبوں کا تعاون حاصل تھا۔ ایک خوبصورت دیدہ زیب رسالہ جس سے حفیظ جالندھری، عبدالمجید سالک، امتیاز علی تاج، احمد ندیم قاسمی وغیرہ کی وابستگی تھی۔ محترمہ بنت نذرالباقر، محمدی بیگم اور حجاب امتیاز علی بھی اس کی ادارت سے وابستہ رہی ہیں۔ اس رسالہ کے قلم کاروں میں پطرس بخاری، محمد دین تاثیر، شوکت تھانوی اور اختر شیرانی جیسی قد آور شخصیتیں تھیں۔
تقسیمِ ہند کے بعد بھارت اور پاکستان میں بچّوں کے کئی رسالے جاری کیے گئے اور یہ تقریبا ہر گھر میں موجود ہوتے تھے۔ رفتہ رفتہ ہمارے گھروں سے اخبار و رسائل نکلتے چلے گئے اور آج ہم نہ صرف کتب بینی اور مطالعے کے رجحان کو خطرناک حد تک کم ہوجانے یا نوجوانوں کی کتاب سے دوری کا شکوہ کررہے ہیں بلکہ بچّوں کے قلم کار بھی اب بہت کم رہ گئے ہیں۔ دوسرا بڑا سوال معیاری ادب کا بھی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بچوں نے اسکرین سے اپنا رشتہ جوڑ لیا ہے اور وہ ان رسائل کے قاری نہیں رہے جو کسی نہ کسی طور بازار میں اب بھی آ رہے ہیں۔
اس طرف اہلِ قلم اور قوم اور اپنے مستقبل سے مخلص افراد کو ہی نہیں حکومت کو بھی توجہ دینا چاہیے۔ حکومتی سرپرستی میں بچّوں کے لیے معیاری ادب تخلیق کرکے اسے فروغ دیا جا سکتا ہے جو کہ بہت ضروری ہے۔