بہت پرانی بات ہے کہ این نامی ایک عورت تھی جو بیوہ تھی۔ اس کی ایک نوجوان بیٹی تھی جس کا نام آریا تھا۔ بیوہ ہونے کے بعد این کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ رہا تو اس نے ایک شخص ریڈ سے شادی کر لی۔ ریڈ کی بیوی مر چکی تھی، لیکن اس کی بھی ایک بیٹی تھی جس کا نام ماریا تھا اور وہ بھی آریا ہی کی طرح نوجوان تھی۔
حکایات اور مزید دلچسپ کہانیاں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
این اپنی بیٹی آریا کو بڑے لاڈ پیار سے پالتی۔ اسے اچھے سے اچھا کھانے کو دیتی۔ اچھے اچھے کپڑے پہناتی۔ اُس کے بالوں میں کنگھی کرتی اور آنکھوں میں سُرمہ لگاتی۔ اسے گھر کا کوئی کام نہ کرنے دیتی۔ وہ سارا دن کھیلتی کودتی رہتی ۔ لیکن ماریا اس کی سوتیلی بیٹی تھی، اس لیے اس بے چاری کی ہر وقت کم بختی آئی رہتی۔
جو تھوڑا بہت کھانا بچ رہتا وہ ماریا کو کھانے کو ملتا۔ اس کے کپڑے پھٹے رہتے۔ بال سنوارنے کا تو اس بے چاری کو ہوش ہی نہ تھا۔ اس کی سوتیلی ماں تمام دن اسے گھر کے کام میں لگائے رکھتی۔ اسے کبھی کھیلنے کا موقع نہ ملتا۔ اس کے باوجود اسے اکثر مار پڑتی۔
سوتیلی ماں ہونے کے علاوہ این کو ماریا سے ایک اور دشمنی بھی تھی۔ وہ اتنے پھٹے پرانے کپڑوں میں اور نہائے دھوئے بغیر بھی اتنی خوب صورت اور پیاری لگتی کہ شادی کے لیے جو بھی پیغام آتا وہ اُسی کے لیے آتا۔ آریا کو کوئی پوچھتا بھی نہ تھا۔ این ہر وقت یہی سوچتی رہتی کہ ماریا سے کس طرح پیچھا چھڑایا جائے۔ اور اس کو کس طرح راستے سے ہٹایا جائے تاکہ لوگوں کی توجّہ اس کی اپنی لڑکی آریا کی طرف ہو۔
یہ لوگ ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ گاؤں کے باہر ایک ندی بہتی تھی۔ اس ندی کے کنارے ایک جھونپڑی تھی۔ ٹوٹی پھوٹی بوسیدہ سی۔ اس کے اندر مکڑیوں نے جالے تان رکھے تھے۔ یہ اندر سے اتنی ڈراؤنی تھی کہ اگر کوئی بھولا بھٹکا مسافر اُدھر آ نكلتا تو تھکا ہارا ہونے کے باوجود وہاں رات گزارنے کی جرأت نہ کرتا۔
اس جھونپڑی کے پاس سے جو راستہ گزرتا تھا وہ لوگوں نے مدت سے استعمال کرنا چھوڑ دیا تھا۔ کیوں کہ مشہور یہ تھا کہ اس جھونپڑی میں جن بھوت رہتے ہیں۔ آدھی رات کے بعد اس میں سے ناچنے گانے کی آواز آتی ہے۔ روشنی کبھی جلتی ہے کبھی بجھتی ہے۔
ایک شام سوتیلی ماں نے ماریا سے کہا کہ وہ چرخا اور روئی اٹھا کر اُس جھونپڑی میں چلی جائے اور ساری رات وہیں بیٹھ کر چرخا کاتے۔ صبح تک ساری روئی کا دھاگا بن جانا چاہیے، ورنہ اُسے گھر سے نکال دیا جائے گا۔
اصل میں این کو پتا تھا کہ بہادر سے بہادر آدمی بھی اُس جھو نپڑی میں داخل ہونے کا حوصلہ نہیں کر سکتا۔ اس نے سوچا کہ جب ماریا وہاں جائے گی تو جن بھوت اُسے مار دیں گے اور یوں اس مصیبت سے نجات مِل جائے گی۔
ماریا بہت روئی چِلّائی۔ اُس نے سوتیلی ماں کی بہت منّت سماجت کی لیکن اُس پتھر دل عورت پر کچھ بھی اثر نہ ہوا۔ ماریا رو رو کر چپ ہو گئی۔ اس نے ایک کندے پر چرخا رکھا، دوسرے پر روئی کی گٹھڑی اور آہستہ آہستہ ندی کی طرف چل دی۔
جب وہ جھونپڑی کے پاس پہنچی تو خوف سے کانپنے لگی۔ تیز آندھی چل رہی تھی اور ہوا سائیں سائیں کر رہی تھی۔ اس نے حوصلہ کر کے جھونپڑی کا دروازہ کھولا تو چرچراہٹ کی آواز آئی اور وہ کانپ گئی۔ اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہی روشنی ہو گئی۔ اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ روشنی کہاں سے آ رہی ہے؟ وہ خاموشی سے زمین پر بیٹھ گئی اور تیزی سے چرخا کاتنا شروع کر دیا تا کہ صبح ہونے سے پہلے پہلے ساری روئی کا دھاگا بنا لے اور اسے گھر سے نہ نکالا جائے۔
وہ چپ چاپ چرخا کاتتی رہی۔ آدھی رات تک کوئی خاص بات نہیں ہوئی۔ آدھی رات کے قریب زور کی آندھی چلنا شروع ہو گئی اور باہر ایسی آواز آئی جیسے کوئی گاڑی آ کر رکی ہو۔ وہ بہت گھبرائی اور چرخا چھوڑ کے ایک کونے میں دبک گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے! بیٹھی رہے تب بھی مشکل اور اگر بھاگ نکلے تو وہ لوگ اسے دیکھ لیں گے جن کی گاڑی کی آواز آئی تھی۔ وہ سوچنے لگی میں کیا کروں؟ کوئی مجھے اٹھا کر نہ لے جائے۔ ویسے تو وہ اپنے گھر میں بہت تنگ تھی اور وہاں نہیں رہنا چاہتی تھی، لیکن یہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ کوئی جِن بھوت اُسے اُٹھا کر لے جائے اور چیر پھاڑ کر کھا جائے۔
وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ دو نوجوان لڑکے اندر داخل ہوئے۔ وہ یہ دیکھ کر حیران ہوئی کہ دروازہ تو بند ہے، یہ لوگ اندر کیسے داخل ہو گئے؟ ان نوجوانوں نے بالکل ایک جیسے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ تنگ کوٹ، تنگ پتلونیں۔ پیروں میں سیاہ بوٹ۔ سر پر ٹیڑھی ٹوپیاں۔ ان کی آنکھیں ایسی سُرخ تھیں جیسے انگارے دہک رہے ہوں۔ جوں ہی وہ اندر داخل ہوئے، جھونپڑی میں سازوں کی دل کش آوازیں گونجنے لگیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اور موسیقی کی دھن پر ناچتے ہوئے گانے لگے:
ناچیں گے نچائیں گے
لڑکی کو لے جائیں گے
لوٹ کے پھر نہیں آئیں گے
ماریا انہیں حیرت سے دیکھتی رہی اور وہ تالیاں بجا بجا کر ناچتے گاتے رہے۔ جب تھک گئے تو لڑکی کی طرف آئے اور ایک لڑکا ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولا۔ ”آؤ! ہمارے ساتھ ناچو۔۔۔“
ماریا اب اتنی خوف زدہ نہ تھی۔ پہلے اسے یہ ڈر تھا کہ خوف ناک قسم کے بھوت جھونپڑی میں آئیں گے اور اسے کھا جائیں گے یا اٹھا کر لے جائیں گے لیکن یہ لڑکے تو بڑے خوب صورت تھے اور اُنہوں نے اسے بالکل تکلیف نہ دی تھی۔ وہ بولی ”آپ لوگوں کے ساتھ ناچنے میں مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن ذرا میری حالت تو دیکھیے۔ ننگے پاؤں اور پھٹے کپڑوں میں گھر سے نکلی ہوں۔ ایسی حالت میں آپ کے ساتھ ناچتی اچھی نہ لگوں گی۔“
”تو کیا چاہیے تمہیں؟“ انہوں نے پوچھا۔
ماریا بولی۔ ”سرخ رنگ کی جوتوں کی جوڑی ، جس کا تلا مضبوط لیکن ایڑی ہلکی ہو۔“ دونوں لڑکے باہر نکلے اور ماریا کی پسند کا جوتا لے کر فوراً ہی واپس آ گئے۔ پھر اُس نے انہیں ریشمی جرابوں، ریشمی ٹوپی، سنہری ہار اور سرخ ربن لانے کے لیے بھیجا۔ اس کے بعد دستانے، پنکھا اور رومال لانے کے لیے کہا۔ جب وہ یہ سب کچھ لے کر آ گئے تو ماریا بولی۔ ”کیا آپ مجھے کچھ پیسے نہیں دیں گے؟“
دونوں لڑکے پھر بھاگے گئے اور روپوں سے بھری ہوئی تھیلی لا کر ماریا کے قدموں میں ڈال دی۔ وہ جب بھی باہر جاتے، ماریا ان کے واپس آنے تک کوئی فرمائش سوچ رکھتی۔ اسے پتا تھا کہ صبح کی روشنی کے ساتھ ہی یہ لڑکے غائب ہو جائیں گے۔ اب اس کی سمجھ میں کوئی اور بات نہ آ رہی تھی۔ اسے خاموش دیکھ کر لڑکے بولے، ”اب تو ہم سب کچھ لا چکے۔ اب کوئی کسر باقی نہیں رہی ۔ چلو آؤ۔ اب ہمارے سات ناچو۔۔۔۔“
اچانک ماریا کے دماغ میں ایک اور بات آ گئی اور وہ بولی ”ہاں اب سب کچھ آ چکا ہے۔ لیکن منہ ہاتھ دھونے کے لیے پانی بھی تو چاہیے۔ یہ کہہ کر اُس نے انہیں ایک چھلنی دی کہ اس میں پانی بھر کر لائیں۔“
وہ بھاگے بھاگے ندی پر گئے۔ لیکن جب چھلنی کو بھر کر اوپر اُٹھاتے تو اس میں سے پانی نکل جاتا اور وہ پھر پانی بھرنے لگتے۔ تمام رات گزر گئی، لیکن چھلنی میں پانی نہیں بھرا۔ آخر کار جب مرغے کی بانگ سُنائی دی تو وہ غُصّے کے عالم میں جھونپڑی میں واپس آئے اور چھلنی کو زمین پر پٹختے ہوئے بولے ” چالاک لڑکی، اب تو ہم جا رہے ہیں۔ كل ذرا اِدھر آنا۔ پھر دیکھنا تمہارا کیا حال کرتے ہیں۔ ساری چالاکی دھری کی دھری رہ جائے گی۔“ یہ کہہ کر وہ غائب ہو گئے اور کمرے میں خاموشی چھا گئی۔
ماریا تھک چکی تھی۔ آدھی رات تک وہ چرخا کاتتی رہی تھی۔ پھر ان لڑکوں سے پالا پڑ گیا ۔ اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں اور جلد ہی وہ گہری نیند سو گئی۔
اُدھر اس کی سوتیلی ماں صبح ہی صبح یہ سوچ کر گھر سے نکلی کہ لڑکی ضرور مر گئی ہو گی۔ وہ دل ہی دل میں خوش ہو رہی تھی کہ ہمیشہ کے لیے اس مصیبت سے چھٹکارا مل گیا لیکن جھونپڑی میں جا کر کیا دیکھتی ہے کہ مرنا تو رہا ایک طرف ماريا کا تو بال بھی بیکا نہ ہوا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ تو بہترین کپڑے پہنے، قیمتی ہار، ٹوپی اور ایسی ہی بہت سی قیمتی چیزوں سے لدی پھندی آرام سے سو رہی تھی۔
اس نئے ماریا کو جھنجھوڑ کر جگایا۔ وہ آنکھیں ملتی ہوئی اٹھی تو سوتیلی ماں نے اس پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ اور جب ماریا نے ساری کہانی اُسے سنائی تو وہ بہت ہی حیران ہوئی۔
اب تو اُسے ماریا پر اور بھی غصّہ آیا۔ وہ اس بات پر جل گئی تھی کہ ماریا کے پاس آریا سے بھی اچھے کپڑے اور عمدہ عمدہ چیزیں ہیں۔ فوراً گھر پہنچی اور آریا سے بولی ”بیٹی آج رات تم اُس جھونپڑی میں جاؤ اور ان لڑکوں سے اس سے بھی زیادہ قیمتی چیزیں مانگو۔ دیکھ لینا، وہ تم کو سر سے پاؤں تک سونے میں لاد دیں گے۔“
آریا نے اپنی ماں کی ہدایت پر عمل کیا۔ شام کو چرخا اور روئی لے کر جھونپڑی میں پہنچی اور چرخا کاتنے لگی۔ سب کچھ اسی طرح ہوا جیسے پچھلی رات کو ہوا تھا۔ آدھی رات کے قریب ایک گاڑی کی آواز آئی اور پھر وہی لڑکے، اسی طرح بغیر دروازہ کھولے کمرے میں داخل ہوئے۔ ان کے کمرے میں داخل ہوتے ہی ساز بجنا شروع ہو گئے اور وہ تالیاں بجا بجا کر گانے لگے۔
ناچیں گے نچائیں گے
لڑکی کو لے جائیں گے
رات کا بدلہ چکائیں گے
لیکن آریا اتنی عقل مند یا چالاک نہ تھی جتنی ماریا۔ جب لڑکوں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا ”آؤ، ہمارے ساتھ ناچو۔۔۔“ تو اس نے ساری چیزیں ایک ہی وقت میں مانگ لیں۔ اس نے کہا ناچنے کے لیے اچھے سے جوتے لا دو۔ ریشمی جرابیں، ریشمی ٹوپی، سنہری ہار اور سرخ ربن لا دو۔ اس کے ساتھ ہی اس نے پیسوں کی بھی فرمائش کر دی۔
لڑکے جب سب کچھ لے آئے تو پھر اس نے انہیں پانی لانے کو کہا تا کہ ہاتھ دھو لے لیکن اس کی ماں نے اس کو چھلنی نہ دی تھی۔ اس نے سوچا کہ چھلنی کے متعلق تو ان لوگوں کو پتا چل چکا ہے کہ اس میں پانی نہیں لیا جا سکتا۔ اس نے آریا کو ایک ایسی بالٹی دے دی تھی جس کے تلے میں سوراخ تھے۔
لڑکوں نے بالٹی ندی کے کنارے کیچڑ میں رکھ دی۔ پھر ایک لڑکے نے دوسرے سے کہا ”کل رات ہم پانی نہ لے جا سکے تھے۔ آج ایسا کرتے ہیں کہ بالٹی میں پہلے کُچھ ریت بھر لیتے ہیں تا کہ سوراخ بند ہو جائیں۔“ بالٹی کے سوراخوں میں کیچڑ بھر گئی تھی۔ لڑکوں نے اس کے اندر ریت کی موٹی سی تہہ بھی بچھا دی۔ پھر بالٹی میں پانی بھرا اور اسے لے کر جھونپڑی میں پہنچے۔
آریا نے بہت سوچا لیکن اور کوئی بہانہ اس کی سمجھ میں نہ آیا۔ لڑکے چلّائے، ”چالاک لڑکی، جلدی کر ہاتھ منہ دھو، کپڑے بدل اور ہمارے ساتھ ناچ۔“
آریا نے منھ دھویا، کپڑے بدلے اور پھرشیشہ دیکھنے لگی۔ لیکن لڑکوں نے اسے پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹ لیا اور ناچنے لگے۔ وہ ایک دائرے میں اتنی تیزی سے چکّر لگا رہے تھے کہ آریا کے قدم لڑکھڑا گئے۔ لیکن وہ لڑکے نہ رکے اور اسی طرح ناچتے رہے۔ یہاں تک کہ اسے یوں لگا جیسے اُس کے بازو اور ٹانگیں جسم سے الگ ہو جائیں گی۔ وہ چلّائی۔
”خدا کے لیے ذرا رکو۔ مجھے سانس لینے دو۔ چکّر آ رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بیٹھنے دو۔۔۔۔“
لیکن وہ بھلا رکنے والے کب تھے۔ وہ اور بھی تیزی سے ناچنے لگے، یہاں تک کہ مرغے نے اذان دے دی۔ جب وہ رُکے تو آریا بے ہوش ہو کر گر پڑی۔ انہوں نے اس کا سر کاٹا اور پھر پیشانی میں کیل ٹھونک کر اُسے جھونپڑی کے باہر دروازے پر لٹکا دیا ۔ پھر لاش اٹھا کر ندی میں پھینک دی اور غائب ہو گئے۔ یہ لڑکے اصل میں بھوت تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی آدمی اس جھونپڑی میں آئے۔ اگر پہلی رات ماریا بھی ان کے ساتھ ناچنے لگتی تو وہ اس کا بھی یہی حال کرتے۔ لیکن اُس نے انہیں اس بات کا موقع ہی نہ دیا۔
آریا کی ماں صبح کو خوشی خوشی اُٹھی اور اِس خیال سے جھونپڑی کی طرف چل دی کہ آریا نے ان لوگوں سے بہت قیمتی تحفے لیے ہوں گے۔ جب وہ اس موڑ پر پہنچی جہاں سے جھونپڑی کا دروازہ نظر آ رہا تھا تو اسے یوں لگا جیسے آریا دروازے میں سے جھانک رہی ہو۔ اس نے زور سے کہا: ”آتی ہوں بیٹی، آتی ہوں۔ ذرا صبر کرو۔“
وہ جھونپڑی کے دروازے پر پہنچی تو یہ سمجھی کہ دیوار میں سوراخ ہے اور آریا نے سر باہر نکال رکھا ہے۔ وہ بولی ”تم تو یوں مسکرا رہی ہو بیٹی جیسے دنیا جہان کی ساری دولت تمہیں مل گئی ہو۔ ذرا دکھاؤ تو سہی، کیا کیا چیز ملی ہے تمہیں۔“
اِس کے جواب میں آریا تو کیا بولتی، پاس کے درخت پر ایک پرندہ آ کر بیٹھا اور این کی طرف منہ کر کے بولا: ”بے وقوف اور جاہل عورت۔ دیوار میں تو تیری بیٹی کا صِرف سر ہی ہے۔ اس کا دھڑ تو ندی میں بہہ گیا ہے۔“
اب تو این نے اپنا سر پیٹ لیا۔ یہ تباہی اس کی اپنی ہی لائی ہوئی تھی۔ اس نے سوتیلی بیٹی کے لیے جو کنواں کھودا تھا، اس کی اپنی بیٹی اس میں گر گئی تھی۔
(پولینڈ کی کہانیاں کے عنوان سے سیف الدّین حُسام (ایم اے) کی ترجمہ کردہ ایک منتخب کہانی)