چترال: تحصیل دروش کے دور افتادہ سرحدی گاؤں جنجریت کوہ میں فوڈ پوائزننگ کا شکار ہو کر سینکڑوں افراد کی حالت غیر ہوگئی جنہیں فوری طور پر دروش اسپتال پہنچا دیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق دروش کے دور افتادہ گاؤں جنجریت کوہ میں ایک گھر میں ولیمہ کا کھانا کھانے کے بعد مقامی افراد کی حالت بگڑ گئی اور متعدد افراد کو قے آنا شروع ہوگئی۔
پولیس تھانہ دروش کے ایس ایچ او محمد نذیر شاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں جنجریت کوہ پولیس چوکی سے شام کے ساڑھے چھ بجے اس واقعہ کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے فوراً علاقے میں گاڑیاں روانہ کرنے کا بندوبست کیا اور اپنے اسٹاف کے ہمراہ دروش اسپتال میں انتظامات کیے۔
اس حوالے سے ممبر تحصیل کونسل قصور اللہ قریشی نے میڈیا کو بتایا کہ اس دور افتادہ علاقے میں ٹرانسپورٹ کا بڑا مسئلہ ہے اور پولیس کی طرف سے انہیں مطلع کرنے کے بعد انہوں نے فوری طور پر چار گاڑیاں علاقے کی طرف روانہ کردی تاکہ مریضوں کو جلد از جلد ہسپتال منتقل کیا جا سکے۔
چترال میں مسلح افراد داخل، مقامی افراد میں خوف و ہراس *
چند مریضوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ولیمے کا کھانے کے ڈیڑھ گھنٹے بعد لوگوں کی حالت بگڑ گئی۔
دوسری جانب بڑی تعداد میں مریضوں کی آمد کے بعد تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال دروش میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی تاہم ابتدا سے ہی دروش اسپتال میں انتظامیہ کے ذمہ دار افسر موجود نہیں تھے۔
ٹی ایچ کیو اسپتال کے ڈاکٹر افتخار اور ڈاکٹر ضیا الملک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 200 سے زائد افراد کو اسپتال پہنچایا گیا جن میں سے چند ایک کی حالت تشویشناک تھی تاہم بروقت طبی امداد ملنے کی وجہ سے ان کی حالت بہتر ہوگئی۔
انہوں نے بتایا کہ 50 سے زائد مریضوں کی حالت بہتر ہونے کے بعد انہیں اسپتال سے فارغ کردیا گیا۔ ان کے مطابق جنجریت کوہ میں لوگوں کو طبی امداد فراہم کرنے کی غرض سے محکمہ صحت کی ایک ٹیم بھی بھیجی گئی ہے جس میں 2 ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف شامل ہیں جبکہ ضروری ادویات بھی بھیج دی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ بھاری تعداد میں مریضوں کی اسپتال آمد پر دروش ہسپتال میں بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی کیونکہ اتنی زیادہ تعداد میں مریضوں کے لیے بستر دستیاب نہیں تھے جبکہ اسپتال کے اسٹاک میں موجود ادویات بھی کم پڑگئیں جس کے بعد بازار سے مزید ادویات منگوائی گئیں۔
چترال میں پھلوں سے لدے درختوں کا خوبصورت منظر *
اس سلسلے میں اسپتال میں قائم ایچ ایس پی کے وسائل کو بھی استعمال میں لایا گیا جبکہ ایچ ایس پی کے چیئرمین حیدر عباس بھی موجود تھے۔ اسپتال میں مریضوں کو فرش پر لٹا کر انہیں ڈرپ لگائی گئی۔ چترال اسکاؤٹس کی طرف سے فوری طور ٹینٹ اور چٹائیوں کا بندوبست کر کے اسپتال کے صحن میں عارضی کیمپ لگایا گیا۔
کیمپ میں چترال اسکاؤٹس کے میڈیکل آفیسر، ان کا عملہ اور کیپٹن شبیر مریضوں کی خدمت دیکھ بھال کے لیے موجود رہے جبکہ کسی بھی قسم کی ہنگامی ضرورت کے لیے چترال اسکاؤٹس کی ایمبولنس گاڑیاں بھی اسپتال میں موجود رہیں۔ ایمرجنسی صورتحال کے دوران اسپتال کو بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا جس کی وجہ سے مقامی لوگوں نے اسپتال کو اپنے جنریٹر فراہم کر دیے۔
واقعے کی اطلاع ملتے ہی مقامی افراد بڑی تعداد میں اسپتال میں جمع ہو گئے اور امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مخیر حضرات نے مریضوں کو لانے کے لیے گاڑیاں، ادویات اور دیگر ضروری اشیا فراہم کیں۔ ڈی ایچ او ڈاکٹر اسرار احمد بھی چترال سے دروش پہنچ گئے ہیں۔
دوسری طرف عوامی حلقوں نے اس ہنگامی موقع پر اسسٹنٹ کمشنر دروش کی عدم دستیابی پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر چترال سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سے قبل ارسون کے تباہ کن سیلاب کے موقع پر بھی دروش میں اسسٹنٹ کمشنر موجود نہیں تھے۔