بدھ, دسمبر 4, 2024
اشتہار

چترال کی خواتین میں بڑھتا ہوا خودکشی کا رحجان

اشتہار

حیرت انگیز

چترال کی خواتین میں خودکشیوں کا بڑھتاہوا رحجان ایک لمحہ فکریہ ہے جس کے سبب علاقے کے لوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے، غیر ملکی رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں ڈیڑھ سو خواتین اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرچکی ہیں اور اس کام کے لیے اکثریت دریائے چترال کا انتخاب کرتی ہیں۔

کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے نے اس کی وجہ جاننے یا اس کی روک تھام کے لیے کوئی خاطر خواہ کوئی قدم تاحال نہیں اٹھایا ہے۔ اگرچہ بعض غیر سرکاری اداروں نے اس بابت آگاہی کے حوالے سے سیمینار منعقد کئے مگر اس بڑھتی ہوئی شرح کو کم کرنے یا روکنے کے لیے ابھی تک کوئی عملی کام نہیں ہوا ہے۔

اے آر وائی نیوز کے نمائندے نے معاملے کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے اس پر تحقیقاتی رپورٹ تیار کرنا شروع کی تو ہر قدم پر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا اور معاشرتی مشکلات ہر ایک مرحلے پر آڑے آئیں۔ جس خاندان میں بھی کوئی لڑکی خودکشی کرتی ہے ، اس کے اہل حانہ بات کرنے سے گریز کرتے ہیں اور اس موضوع پر بولنا نہیں چاہتے۔ چونکہ چترال کا معاشرہ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کا حامل ہے اس لیے یہاں کی خواتین سمجھتی ہیں کہ اس بارے میں آزادانہ بات کرنے پر انہیں کئی مشکلات کا سامنا پڑتا ہے۔

- Advertisement -

چھ ماہ میں‌ 22 ویں خودکشی، ایک اورلڑکی نے اپنی جان لے لی


چترال کے بالائی علاقے میں امسال بہت زیادہ خودکشیاں ہوئی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پچھلے سات مہینوں میں 24 خودکشیوں کے واقعات ہوچکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین ہیں۔

آمنہ نگار ایک ماہر تعلیم ہے جن کا تعلق بونی سے ہے اور وہ ایک نجی ہائیر سیکنڈری سکول میں پرنسپل ہیں۔ ان کے خیال میں چترال کے خواتین میں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کی رحجانات میں کئی عوامل کارفرما ہیں۔ پرنسپل کا کہنا تھا کہ میڈیا پر ملک کے ترقی یافتہ علاقوں کی لڑکیوں (خواتین) کو دکھایاجاتا ہیں جنہیں چترال کی خواتین کی نسبت زیادہ وسائل دستیاب ہیں اور ان کا اندازِ زندگی یہاں سے منفرد اور اپنے اندر کشش لیے ہوئے ہے، جبکہ چترال میں اس انداز کے وسائل دستیاب نہیں جس سے ہماری خواتین احساس کمتری کے شکار ہورہی ہیں اور خودکشیاں کررہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنی بچوں کو بعض مقامات پر بے جا آزادی بھی دیتے ہیں لیکن آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کی ہر خواہش پوری کی جاسکے۔ ہمارے وسائل کی کمی بھی اس کی بڑی وجہ ہوسکتی ہے۔ ہمارا معاشرہ بڑی تیزی سے تبدیل ہورہا ہے اور ترقی کررہا ہے مگر ہم اپنے بچوں کو وہ سہولیات اور وسائل نہیں دے سکتے جو چترال سے باہر دوسروں کو دستیاب ہیں۔

اسی حوالے سے ایک اور اسکول ٹیچر نازیہ کنول سے بھی گفتگو کی گئی ، ان کا کہنا ہے ماں باپ اور بچوں کے درمیان دوستانہ ماحول بھی خودکشیوں میں کمی لاسکتا ہے اور بچوں کے مسائل کو سمجھنا اور ان کی ممکن حد تک جائز مطالبات اورخواہشوں کو بھی پورا کرنا چاہئے۔

معروف سماجی کارکن عنایت اللہ اسیر کا کہنا ہے چترال میں خواتین کو تعلیم کے مواقع تو دستیاب ہیں مگر تعلیم حاصل کرنے کے بعد اکثر خواتین گھروں میں بے روزگار بیٹھتی ہیں جس کے سبب ذہنی انتشار میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پورے چترال میں کوئی سائیکاٹرسٹ یعنی ذہنی مسائل کا ماہر ڈاکٹر نہیں ہے جو خواتین میں بڑھتے ہوئے ڈپریشن کی بروقت تشخیص کرکے اس کا علاج کرسکے۔ خود کشیوں میں اضافے کا سبب یہ بھی بتایا کہ پورے چترال میں کوئی دار الامان نہیں ہے جہاں اپنے گھروں سے پریشان خواتین محفوظ رہ سکیں ۔ اگر ان کو محفوظ پناہ مل جائے تو وہ مایوسی کا شکار نہیں ہوں گی اور دریائے چترال میں چھلانگ لگانے کی بجائے وہ اس دارالامان یا محفوظ پناہ گاہ میں جاکر پناہ لیں گی۔

امریکی یونیورسٹی سے وابستہ معروف ماہر نباتات پروفیسر ڈاکٹر میری الزبتھ نے اس موضوع پر انتہائی کار آمد گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خالی ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے اور جو خواتین کسی نہ کسی کام میں مشعول ہوں یا کسی ملازمت یا روزگار سے وابستہ ہو تو ان کو فضول سوچنے کا فرصت نہیں ملتا اور ایسی خواتین میں خودکشی کا رحجان انتہائی کم ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر الزبتھ نے مزید بتایا کہ چترال کے خواتین کو بھی ایسے مواقع فراہم کرناچاہئے کہ وہ اس میں مصروف رہیں ، مثال کے طور پر وہ کچن گارڈن بنائے اور باغات لگانے، سبزی اگانے یا اپنے گھر کے اندر یا گھر کے آس پاس اگر وہ پودے ، درخت لگائے یا کوئی سبزی اگائے جس سے نہ صرف ان کے اوقات مفید سرگرمیوں میں صرف ہوں گے بلکہ ایسا کرنے سے ان کو کچھ آمدنی بھی آئے گی او ر ظاہر ہے جو خاتون گھر کی معیشت میں حصے دار ہوں گی ان کا نہ صرف گھر میں احترام کیا جائےگا بلکہ معاشرے میں ہر جگہ ان کی اہمیت ہوگی۔

بالائی چترال میں نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک شحص نے بتایا کہ اس کی جوان بیٹی نے صرف اس لئے خودکشی کرلی کہ اس کے منگیتر نے اسے آٹھ ماہ بعد بتایا کہ وہ اسے پسند نہیں کرتا اور وہ دوسری شادی کرنا چاہتا ہے۔ یہ سن کر میری بیٹی نے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرلی۔ شادیوں کے موقع پر مناسب تفتیش اور زوجین سے ان کی باقاعدہ رضا مندی لی جائے تو بھی اس مسئلے کا سدباب ممکن ہے۔

اس سلسلے میں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر منصور امان کا کہنا ہے کہ انہوں نے خودکشیوں کی شرح کم کرنے کے لیے تھانہ چترال میں باقاعدہ ویمن رپورٹنگ ڈیسک قائم کیا ہے جہاں ایک علیحدہ دفتر میں صرف خواتین کانسٹیبل بیٹھ کر خواتین کی رپورٹ درج کرتی ہیں تاکہ ایک عورت دوسرے عورت کو اپنا مسئلہ آسانی سے بیان کرسکے۔

[bs-quote quote=”بدلتی ہوئی معاشرتی صورتحال بھی خودکشیوں کے رحجان میں اضافے کا اہم سبب ہے” style=”style-17″ align=”center” author_name=”بدلتی ہوئی معاشرتی صورتحال بھی خودکشیوں کے رحجان میں اضافے کا اہم سبب ہے”][/bs-quote]

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک اہلکار نے بتایا کہ چترال کے خواتین میں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کے اسباب میں ایک کم عمری کی شادی اور چترال سے باہر کی شادی بھی ہوسکتی ہے کیونکہ مشاہدے میں آیا ہے کہ چترال سے باہر جو شادی کی جاتی ہے اس کا اختتام یا طلاق ہوتا ہے یا پھر قتل۔

ایک پولیس افسر کا کہنا ہے کہ اس میں بعض فرسودہ رسومات بھی شامل ہیں، مثال کے طور پر چترال کے لوگ شادی بیاہ کے وقت لڑکے والے سے خرچہ لیتے ہیں جو لاکھ سے ڈیڑھ یا دو لاکھ روپے تک ہوتا ہے ۔ اب یہ الگ سوال ہے کہ آیا یہ رسم صحیح ہے یا غلط، یہ اسلامی ہے یا غیر اسلامی مگر حقیقت یہ ہے کہ رسم اب بھی جاری ہے جس میں لڑکی کا باپ دولہا سے پیسے لیتا ہے اور رخصتی کے بعد جب لڑکی اپنے شوہر کے گھر میں خوش نہ ہو تو وہ واپس آتی ہے جس کے نتیجے میں اس کے سسرال والے ان پیسوں کی واپسی کا تقاضا کرتے ہیں۔ دوسری جانب لڑکی کے گھر والے وہ رقم شادی کی ضیافتوں میں خرچ کرچکے ہوتے ہیں اور اکثر اوقات غربت کے سبب رقم کی ادائیگی مسئلہ بن جاتی ہے ، اس صورتحال میں لڑکیا ں خود کو قصور وار سمجھتے ہوئے خودکشی کا راستہ اپناتی ہیں۔

وجہ خواہ کچھ بھی ہو مگر چترال جیسے مثالی پر امن ضلع میں خواتین میں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کی رحجان باعث تشویش ہے اور حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ بھی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ صحیح معنوں میں تحقیق کرکے اس کی اصل وجوہات جانی جائیں اور ان کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں جن میں سرفہرست چترال کے ہر بڑے اسپتال میں ذہنی امراض کے ماہر ڈاکٹر کی تعیناتی اور سرکاری سطح پر ہر بڑے قصبہ میں دارالامان یعنی محفوظ پناہ گاہ بھی ہونا چاہئے تاکہ جو خواتین گھر سے بددل یا بے گھر ہو وہ مایوسی کے شکار ہو کر خودکشی کرنے کے بجائے ان محفوظ پناہ گاہوں کا رخ کرے۔

Comments

اہم ترین

مزید خبریں