مغربی کنارہ: فلسطین کے علاقے بیت لحم میں ایوینجلیکل لوتھرن چرچ کے منبر پر سربراہ ریورنڈ منذر اسحاق نے کرسمس کے موقع پر ایک رقت آمیز خطبہ دیا اور دنیا کو اسرائیلی مظالم پر جھنجھوڑنے کی کوشش کی۔
تفصیلات کے مطابق کرسمس کے دن فلسطینی علاقے بیت لحم کے چرچ کے سربراہ ریورنڈ منذر اسحاق نے خطبے میں کہا کہ مسیح ملبے تلے دبے ہیں اور ہم غصے میں ہیں، ہم ٹوٹ چکے ہیں، وہ ہم پر بم پھینکتے ہیں اور اپنی سرزمین پر کرسمس مناتے ہیں۔
انھوں نے کہا یہ خوشی کا وقت ہے لیکن ہم اس کے بجائے ماتم کر رہے ہیں، ہم خوف زدہ ہیں، 20 ہزار سے زیادہ مارے جا چکے ہیں، اور ہزاروں اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، اور 9 ہزار کے قریب بچوں کو انتہائی وحشیانہ طریقے سے قتل کیا گیا۔
دنیا بھر میں کرسمس کا جشن جاری، پوپ فرانسس کی تہوار سادگی سے منانے کی اپیل
پاسٹر منذر اسحاق نے کہا ’’جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ غزہ اب موجود نہیں ہے، یہ ایک نسل کشی ہے دنیا دیکھ رہی ہے، چرچ دیکھ رہے ہیں، غزہ کے لوگ اپنے ہی خاتمے اور موت کی تصاویر بھیج رہے ہیں، اور ہم دنیا کی خاموشی پر اذیت میں مبتلا ہیں، دنیا کے رہنماؤں نے اس نسل کشی کے لیے اجازت دی ہوئی ہے۔‘‘
➖ ‘Close to 9,000 children killed in the most brutal ways’
➖ ‘This is an annihilation. This is a genocide’
➖ ‘The world is watching. Churches are watching’Pastor Munther Isaac, head of the Evangelical Lutheran Church in Bethlehem and Beit Sahour, speaks about the Gaza… pic.twitter.com/bwA0OZMu0c
— Anadolu English (@anadoluagency) December 25, 2023
انھوں نے کہا ہوسکتا ہے کہ دنیا پرواہ کرے لیکن یہ جاری ہے، ہمارے یورپی دوستوں کو میں دوبارہ کبھی انسانی حقوق یا بین الاقوامی قانون پر لیکچر دیتے نہیں سننا چاہتا، اس جنگ نے ثابت کر دیا کہ دنیا ہمیں مساوی نہیں سمجھتی، ہو سکتا ہے ہمارے رنگ کی وجہ سے۔
انھوں نے کہا نو ہزار بچوں کا قتل سیلف ڈیفنس کیسا ہے؟ ایک اعشاریہ نو ملین فلسطینیوں کی نقل مکانی کس طرح اپنا دفاع ہے، سلطنت کے سائے میں انھوں نے استعمار کو شکار میں اور نوآبادیات کو جارح میں بدل دیا، کیا ہم بھول گئے ہیں کہ جس ریاست کی وہ بات کرتے ہیں وہ ان انتہائی سادہ لوح غزہ کے قصبوں اور دیہاتوں کے کھنڈرات پر بنائی گئی ہے۔
پاسٹر منذر اسحاق نے مزید کہا کہ غزہ آج اخلاقیات کے سلسلے میں دنیا کے لیے ایک کمپاس کی مانند ہے، غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اگر آپ اس سے نا خوش نہیں ہیں، اگر آپ کا دل نہیں دہلا ہے تو آپ کی انسانیت میں کچھ خرابی ہے، اگر آپ اسے نسل کشی کہنے میں ناکام رہتے ہیں تو یہ ایک گناہ اور تاریکی ہے، جسے آپ اپنی مرضی سے قبول کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ غزہ تو ایک بار پھر اٹھ جائے گا، ہم بھی ابھر آئیں گے اس کڑے وقت سے، لیکن کیا آپ بھی ابھر سکیں گے؟ اور میں واضح کر دیتا ہوں کہ نسل کشی کے بعد ہم آپ کی معافی قبول نہیں کریں گے، آپ خود سے سوال کریں گے کہ جب غزہ میں نسل کشی ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا؟