جمعہ, نومبر 8, 2024
اشتہار

سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد:سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت منظور کر لی۔

تفصیلات کے مطابق سائفر کیس میں سابق چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی، سماعت قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔

سابق وزیراعظم کے وکیل سلمان صفدر کے دلائل

- Advertisement -

وکیل سابق وزیراعظم سلمان صفدر نے پریڈ گراؤنڈ میں 27 مارچ 2022 کے جلسے میں شاہ محمود قریشی کی تقریر پڑھ کر عدالت کو سنائی، کہا کہ شاہ محمود نے تقریر میں کہا بہت سے راز ہیں لیکن حلف کی وجہ سے پابند ہوں۔

جس پر قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نے کہا کہ وزیر خارجہ خود سمجھدار تھا سمجھتا تھا کہ کیا بولنا ہے کیا نہیں، جسٹس طارق مسعود  نے کہا وزیر خارجہ نے سائفر کا کہا بتا نہیں سکتا اوربانی پی ٹی آئی کوپھنسا دیا وہ جانے اور عوام، شاہ محمود خود بچ گئے اور بانی پی ٹی آئی کو کہا کہ سائفر پڑھ دو۔

اس پر بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے بھی پبلک سے کچھ شئیر نہیں کیا تھا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کس بنیاد پر پراسیکیوشن سمجھتی ہے ملزمان کو زیر حراست رکھنا ضروری ہے؟۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سابق وزیراعظم کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، سابق وزیراعظم کی 40 مقدمات میں ضمانت قبل ازگرفتاری منظور ہوچکی، کسی سیاسی لیڈر کیخلاف ایک شہر میں 40 مقدمات نہیں ہوئے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ جس انداز میں ادارے مقدمات درج کر رہے ہیں اسے رکنا چاہیے، سابق وزیراعظم ریاستی دشمن نہیں بلکہ سیاسی دشمن ہیں، سابق وزیراعظم نے خط کے مندرجات کسی سے شیئر نہیں کئے۔

شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری کے دلائل

شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے دلائل دیے کہ شاہ محمود قریشی پر نہ سائفر رکھنے کا الزام ہے نہ ہی شیئر کرنے کا، شاہ محمود پر واحد الزام تقریر کا ہے جس کا جائزہ عدالت پہلے ہی لے چکی۔

سیکریٹری خارجہ نے وزیراعظم کو بتایا تھا یہ دستاویزپبلک نہیں کرنی؟ جسٹس اطہر من اللہ

 جسٹس اطہر من اللہ نے شاہ محمود کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا سیکریٹری خارجہ نے وزیراعظم کو بتایا تھا یہ دستاویزپبلک نہیں کرنی؟ تفتیشی افسر کے سیکریٹری خارجہ کے بیان میں کیا لکھا ہے؟۔

پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے دلایل دیے کہ سیکریٹری خارجہ نے میٹنگ میں یہ بات کہی تھی، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیکریٹری خارجہ نے تحریری طور پر کیوں نہیں آگاہ کیا؟ سائفر کی ایک ہی اصل کاپی تھی جو دفتر خارجہ میں تھی، کس سائفر دفتر خارجہ کے پاس ہے تو باہر کیا نکلا ہے؟۔

پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ حساس دستاویز کو ہینڈل کرنے کیلئے رولز موجود ہیں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ رولز کی کتاب کہاں ہیں؟پراسیکیوٹر نے بتایا کہ رولز خفیہ ہیں اس لئے عدالت کی لائبریری میں نہیں ہونگے۔

جسٹس منصور نے کہا کہ رولز کیسے خفیہ ہوسکتے ہیں؟ پراسیکیوٹر نے بتایا کہ یہ ہدایت نامہ ہے جو صرف سرکار کے پاس ہوتا ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس انداز میں ٹرائل ہو رہا ہے پراسیکیوشن خود رولز کی خلاف ورزی کررہی ہے۔

سائفر کا مطلب ہی کوڈڈ دستاویز ہے ڈی کوڈ کے بعد وہ سائفر نہیں رہتا: جسٹس اطہر من الل

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ڈی کوڈ ہونے کے بعد بننے والا پیغام سائفر نہیں ہوسکتا، سائفر کا مطلب ہی کوڈڈ دستاویز ہے ڈی کوڈ کے بعد وہ سائفر نہیں رہتا۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ کیا تفتیشی افسر نے حساس دستاویز پر مبنی ہدایت نامہ پڑھا ہے؟  تفتیشی رپورٹ میں کیا لکھا ہے سائفر کب تک واپس کرنا لازمی ہے؟ نا پراسیکیوٹر کو سمجھ آ رہی ہے نہ تفتیشی افسر کو تو انکوائری میں کیا سامنے آیا ہے؟۔

قائمقام چیف جسٹس سردار طارق نے کیا گواہان کے بیانات حلف پر ہیں؟ ریکارڈ کے مطابق گواہ کا بیان حلف پر نہیں ہے، قائمقام چیف جسٹس نے تنفیشی افسر سے پوچھا کہ کیا اعظم خان کی گمشدگی کی تحقیقات کیں؟۔

شہباز شریف نے کیوں نہیں کہا کہ سائفر گم گیا ہے؟ جسٹس سردار طارق

جسٹس سردار طارق نے سوال اٹھایا کہ شہباز شریف نے کیوں نہیں کہا کہ سائفر گم گیا ہے؟ شہباز شریف نے کس دستاویز پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کیا؟

جس پر پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں سائفرپیش ہوا تھا، ڈی کوڈ کرنے کے بعد والی کاپی سلامتی کمیٹی میں پیش ہوئی تھی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سائفر کیس میں سزائے موت کی دفعات بظاہر مفروضے پر ہیں، سائفر معاملے پر غیر ملکی قوت کو کیسے فائدہ پہنچا؟۔

جسٹس منصور نے سوال اٹھائے کہ پاک امریکا تعلقات خراب  ہوئے کسی اور کا فائدہ ہوا یہ تفتیش کیسے ہوئی؟ تعلقات خراب کرنے کا تو ایف آئی آر میں ذکر ہی نہیں، کیا وزرائے اعظم کو وقت سے پہلے باہر نکالنے سے ملک کی جگ ہنسائی نہیں ہوتی؟ کیا وزرائے اعظم کو وقت سے پہلے ہٹانے پر بھی آفیشل سیکریٹ ایکٹ لگے گا؟ انڈیا میں ہماری جگ ہنسائی تو کسی بھی وجہ سے ہوسکتی ہے اس پر کیا کرینگے؟۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو دستاویز آپ دکھا رہے ہیں اسکے مطابق تو غیر ملکی طاقت کا نقصان ہوا ہے، کیا حکومت 1970 اور 1977 والے حالات چاہتی ہے؟ کیا نگراں حکومت نے ضمانت کی مخالفت کرنے کی ہدایت کی ہے؟۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہر دور میں سیاسی رہنماؤں کیساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ سابق وزیراعظم کے جیل سے باہر آنے سے کیا نقصان ہوگا؟ اس وقت سوال عام انتخابات کا ہے، اس وقت بانی پی ٹی آئی نہیں عوام کے حقوق کا معاملہ ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت بنیادی حقوق کی محافظ ہے، سابق وزیر اعظم پر جرم ثابت نہیں ہوا وہ معصوم ہیں۔

سپریم کورٹ نے فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی درخواست منظور کرتے ہوئے 10، 10 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور کی۔

Comments

اہم ترین

راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز اسلام آباد سے خارجہ اور سفارتی امور کی کوریج کرنے والے اے آر وائی نیوز کے خصوصی نمائندے ہیں

مزید خبریں