اسلام آباد : چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ کا کہنا ہے بدقسمتی سے انصاف کاشعبہ پارلیمنٹ کی ترجیح نہیں، فوری انصاف کیلئےکیسزکی رپورٹس پیش کرناضروری ہے، ججز جتنا کام کررہے ہیں اس سےزیادہ ڈومور کا نہیں کہہ سکتے، ماڈل کورٹس کے لیے مجھے چیتے چاہییں۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی جوڈیشل اکیڈمی میں فوری فراہمی انصاف سے متعلق قومی کانفرنس سے چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا جج بننےسےپہلے20سال بطوروکیل خدمات انجام دےچکاہوں، ماڈل کورٹس کاقیام ایک مشن کےتحت کیاگیا، اس کے پیچھے ایک جذبہ اور عزم تھا، ماڈل کورٹس کے قیام کا مقصد فوری اور سستے انصاف کی فراہمی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا جوڈیشل پالیسی کے تحت مقدمات کے لئے وقت مقرر کیاجائے گا، ماضی میں کیسزکےفیصلوں میں تاخیرختم کرنےکیلئےکئی تجربات کیےگئے کبھی قانون میں ترمیم اورکبھی ڈومورکی تجاویزدی گئیں، ماضی کورٹس کا مقصد التوا کا باعث بننے والی رکاوٹوں کوختم کرناہے۔
ماڈل کورٹس کے قیام کا مقصد فوری اور سستے انصاف کی فراہمی ہے
جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہا پولیس کومقدمےکی فوری تحقیقات کرکےچالان پیش کرناچاہیے، امریکااوربرطانیہ کی سپریم کورٹ سال میں100 مقدمات کافیصلہ کرتی ہیں، ملک میں مجموعی طور پر 3ہزار ججز ہیں، گزشتہ سال عدالتوں نے 34لاکھ مقدمات نمٹائے۔
ان کا کہنا تھا گزشتہ چنددہائیوں میں فوری انصاف کےقانون پرتوجہ نہیں دی گئی، جب سےجج بناہوں میرامقصدفوری انصاف رہاہے، ملزموں کی حاضری یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے، ہمارے ججزجتناکام کررہےہیں اتنادنیامیں کوئی نہیں کرتا۔
گزشتہ سال عدالتوں نے 34لاکھ مقدمات نمٹائے۔
چیف جسٹس نے کہا قیدیوں کولانےوالی پولیس وینزکاباقاعدہ انتظام کیاجاناچاہیے، برطانیہ اوردیگرملکوں میں فیصلوں کےلیےوقت مقررکیاجاتاہے، پاکستان کی سپریم کورٹ نےایک سال میں26ہزارمقدمات نمٹائے، ماڈل کورٹس کاتجربہ آئین کےآرٹیکل37ڈی پرعمل کرناہے۔
جسٹس آصف سعیدکھوسہ کا کہنا تھا مقدمات کا التوا ختم کرنے کی ہرممکن کوشش کررہے ہیں، ملزموں کی عدالتوں میں حاضری یقینی بناناریاست کی ذمہ داری ہے، ماڈل کورٹس میں گواہان پیش کرنےمیں پولیس کاتعاون مثالی ہے، فوری انصاف کیلئےمقدمات کی رپورٹس پیش کرناضروری ہے۔
بدقسمتی سےانصاف کاشعبہ پارلیمنٹ کی ترجیحات میں نہیں
انھوں نے کہا بدقسمتی سےانصاف کاشعبہ پارلیمنٹ کی ترجیحات میں نہیں، جوڈیشل پالیسی کوبہترکرنے کیلئے سفارشات اورتجاویز کو پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیاگیا، ہم نےقانون کوتبدیل کیاہےنہ ہی ضابطہ کاربدلاہے۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا سماعت سے پہلے مقدمےکا تمام مواد عدالت میں موجودہوناچاہیے، کیمیکل ایگزامینراور فرانزک اتھارٹیزکی رپورٹس کومقررہ مدت پرپیش کرناہوگا، مقدمےمیں کسی وجہ سےاستغاثہ کے پیش نہ ہونےپرمتبادل انتظام کیاجائے گا، کسی وجہ سے وکیل کے پیش نہ ہونے پر جونیئر کو مقررکیاجائےگا۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا پاکستان میں انسداددہشت گردی قانون کےتحت تمام چیزیں آتی ہیں، قتل،بھتہ اوردیگرجرائم سب انسداد دہشت گردی قانون میں آتے ہیں، ملزمان کومروجہ قانون کےتحت پیش نہ کرنےپرکارروائی ہوگی، ریاست خودایسےقوانین بنانے چاہئیں جوواضح اورکوئی ابہام نہ ہو۔
وراثتی سرٹیفکیٹ اب نادراسےملےگا
ان کا کہنا تھا ملزموں کوبروقت پیش کرنے کیلئے محکمہ صحت کاتعاون بھی درکارہوگا، ملک میں آدھی سے زیادہ آبادی منقولہ جائیدادرکھتی ہے، مقدمات کے ریکارڈ کیلئے مختلف محکموں کوجگہ جگہ فیسیں دینا پڑتی ہیں، فیصلےکیلئےکیس پرسماعت ملتوی نہیں کرناچاہیے، کیس کی سماعت کےساتھ ہی اس کافیصلہ مرتب کرنا چاہیے، کیس میں تاخیرکوٹارگٹ کرکے ختم کرناچاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا وراثتی مقدمات عدالت کےبجائےنادرامیں حل ہوں گے اور وراثتی سرٹیفکیٹ اب نادراسےملےگا، وراثتی سرٹیفکیٹ کیلئےنادراکا نظام اپنانے کی ضرورت ہے، متنازع معاملات اوروراثتی مقدمات کیلئےبھی نظام کوآسان بنایاجارہاہے۔
جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا انسداددہشت گردی ایکٹ سمجھنےکیلئےقانون میں تعارف موجودہے، عدالتی قوانین واضح ہیں انہیں سمجھنےکی ضرورت ہے، ملکی قوانین میں انسانی حقوق کومدنظررکھاجاتاہے، قوانین میں ابہام دورکرنےکیلئےاٹارنی جنرل سےرائےمانگی جاتی ہے۔
ماڈل کورٹس میں مجھےچیتے جج چاہیں جو جھپٹ پڑیں
انھوں نے مزید کہا قانون کہتاہےفوجداری مقدمات کی تحقیقات 2ہفتے میں مکمل ہوں، ہفتے میں تحقیقات کے بعد عدالت میں چالان جمع کراناضروری ہے، چالان جمع ہونے کے بعدعدالت کاکام ہےشیڈول بنائے، ججز جتناکام کررہےہیں اس سےزیادہ ڈومورکانہیں کہہ سکتے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا ماڈل کورٹس کیلئےتعاون اورماہرین دینےپرہائی کورٹس کامشکور ہوں، ڈی جی ماڈل کورٹس سہیل ناصر کےبغیر منصوبہ مکمل نہیں ہوسکتا تھا ، ہائی کورٹس کوکہا تھاماڈل کورٹس میں مجھےچیتے جج چاہیں جو جھپٹ پڑیں۔
ماڈل کورٹس کے ججز کا کردار ناقابل فراموش ہے
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا مجھےاپنے جوڈیشل ہیروز پر فخر ہے، ماڈل کورٹس کے ججز کا کردار ناقابل فراموش ہے، ایک ماہ بعد ماڈل کورٹس میں ایک ایک جج کااضافہ کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کوشش ہوگی نئی ماڈل کورٹس سول مقدمات کی ہوں، پہلے مرحلے میں خاندانی اورکرایہ داری مقدمات نمٹائے جائیں گے، کوشش ہےتمام جج ماڈل کورٹس کےجج بن جائیں۔