سپریم کورٹ نے پی آئی اے میں اربوں کے خسارے کی انکوائری کا حکم دےدیا اورگزشتہ دس سال کے تمام ایم ڈیز کوہدایت کی کہ جب تک انکوائری ہورہی ہے وہ ملک سے باہر نہیں جاسکتے جبکہ اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ حکومت سے پی آئی اے کی نجکاری سے متعلق معلومات لے کر عدالت کو آگاہ کریں۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پی آئی اے کی نجکاری اور آڈٹ سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
سماعت میں پی آئی اے کے9 برس کے آڈٹ اکاؤنٹس کی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔
پی آئی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پی آئی اے کا96 فیصد حصہ حکومت کی ملکیت ہے، اپریل 2016 سے پی آئی اے پبلک لمیٹڈ کمپنی ہے، پی آئی اے کو کارپوریٹ طرز پر چلایا جارہا ہے، 11ارکان کےبورڈ میں اکثریت حکومت کی ہے، سیکریٹری ایوی ایشن بورڈ کے ممبراور چیئرمین ہیں، عرفان الہی منتخب ڈائریکٹر ہیں، سیکریٹری ای این ڈی بھی بورڈ کےممبر ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا گزشتہ 9 برس میں پی آئی اے نے کاخسارہ کتناہے، ہر برس کاالگ خسارہ بتائیں، اور ہر برس ایم ڈی کون تھا ، جس پر وکیل پی آئی اے نے بتایا کہ جرمنی کا شہری سابق ایم ڈی پی آئی اے مفرور ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وہ ایم ڈی آ جائیں جن جن کے ادوار میں نقصان ہوا، اس وقت مارکیٹ میں پی آئی اے کےشیئرکی قیمت کیا ہے، وکیل نے بتایا کہاس وقت مارکیٹ میں پی آئی اے کےشیئرکی قیمت 5روپے ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اب تک ہونے والے نقصانات سے آگاہ کریں، عدالت کو بتایا گیا کہ سنہ 2000 سےاب تک پی آئی اے کو تین سوساٹھ ارب روپے کا نقصان ہوچکاہے اور عدالت میں ایم ڈیز کے ادوارکی تفصیلات جمع کرادی گئیں۔
وکیل نے بتایا کہ 2009 میں پی آئی اے کو4.94ارب کانقصان ہوا، تیل کی قیمتیں کم ہونے پر بھی پی آئی اے نفع میں نہ آسکی، 2010 میں20ارب، 2011میں 26ارب کانقصان ہوا ، اس دوران اعجاز ہارون ایم ڈی پی آئی اے تھے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ 2011کے بعد ایم ڈی کون تھا؟ وکیل نے کہا کہ 2012کے وسط تک ندیم خان یوسف زئی ایم ڈی تھے، 2012میں 30ارب کانقصان ہوا، راؤ قمر سلمان کچھ عرصہ ایم ڈی رہے ، 2013 میں 43ارب کانقصان ہوا ،جنید یونس ایم ڈی تھے، 2014 میں 37ارب اور2015میں 32ارب کانقصان ہوا ، 2015میں شاہنواز اور ناصرجعفر ایم ڈی رہے، 2016میں 45ارب کانقصان ہوا ، میں ناصرجعفر،عرفان الہی،اورجرمن شہری ایم ڈی رہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ظالم ہیں،دشمن ہیں،غدار ہیں وہ جنہوں نے ملکی اثاثے برباد کیے،ایم ڈیز نے پی آئی اے کابیڑا غرق کردیا، تمام ایم ڈیزکے ناموں کوای سی ایل میں ڈال رہے ہیں، سب کی تحقیقات کرائیں گے۔ جن کےادوارمیں نقصان ہوا اُن کو نہیں چھوڑیں گے، ذمہ داران سےنقصان کی سے وصولیاں کریں گے۔
پی آئی اےکے وکیل نےعدالت کو بتایا کہ پی آئی اے کا لیز پر لیا گیا جہازنوماہ سے گراؤنڈ ہے اور اس کاماہانہ کرایہ ساڑھے آٹھ کروڑروپےہے، ادارے کے پانچ سو سے زیادہ کیس جعلی ڈگریوں کے ہیں اور نو سو سولہ مقدمات زیرالتوا ہیں۔
وکیل نے بتایا کہ پی آئی اے پاس 10 اے ٹی آر اور بارہ 777طیارے اور 10ایئربس طیارےہیں، پی آئی اےکے پاس بتیس جہاز ہیں، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا بتیس جہاز کافی ہیں، حالات ہیں پی آئی اے کے ،ادارےکوبرباد کرکے رکھ دیا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ کیا سارے جہاز پی آئی اےکی ملکیت ہیں، جس پر وکیل نے کہا کچھ جہاز لیز پر لیے گئے ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا وفاق کاپی آئی اے کی نجکاری کا منصوبہ ہے؟ پی آئی اے کے وکیل نے جواب دیا ہمارا نجکاری کا کوئی ارادہ نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا نجکاری پر پی آئی اے کا موقف آگیا ہے، حکومت سے بھی پوچھ لیتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے آئندہ سماعت پر نجکاری پروفاقی حکومت سے جواب طلب کر لیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پی آئی اے کےمعاملے پرہدایت نہیں لی ، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ کوہدایت لے کرآناچاہیے تھا، حکومت سے فوری ہدایات کےکرآئیں، پی آئی اے کوروٹس کوآؤٹ سورس کیوں کیاگیا ؟ پی آئی اے کے پاس کتنے طیارےہیں ؟
عدالتی استفسارپراٹارنی جنرل نے بتایا فی الوقت حکومت کا پی آئی اے کی نجکاری کاکوئی ارادہ نہیں، نجکاری کی ضرورت پیش آئی تو عدالت کو اعتمادمیں لیاجائیگا، اگرہوئی تو51فیصد حصص حکومت کے پاس رہیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا موجودہ حکومت نجکاری کیسے کرسکتی ہے،اٹارنی جنرل نجکاری سے متعلق حکومت سے ہدایات لے کر عدالت کوآگاہ کریں۔
چیف جسٹس نے پی آئی اے کے گزشتہ دس سال کے تمام ایم ڈیز کو ہدایت کی کہ انکوائری ہونے تک کوئی ایم ڈی بیرون ملک نہیں جائےگا، ایم ڈیزکےنام ای سی ایل میں نہیں ڈال رہے۔
چیف جسٹس نے تمام ایم ڈیز کو ہر سماعت پر حاضر ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ بیرون ملک جانا بھی ہو تو عدالت سےاجازت لیناہوگی۔
پابندی گزشتہ 10سال کےدوران ایم ڈیزرہنے والوں پرہوگی۔
عدالت نے فرخ سلیم کو عدالتی معاون مقررکردیا اور پی آئی اے کے خسارے کی انکوائری پر فرخ سلیم کو دو ہفتے میں ٹی اوآرز بنانے کی ہدایت کی گئی۔ جبکہ دو ہفتے میں آڈٹ رپورٹ کاجائزہ لے کر رپورٹ جمع کرانے کاحکم بھی دیا۔