تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس: چیف جسٹس کا واقعے کی دوبارہ انکوائری کرانے کا حکم

اسلام آباد : ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس کی سماعت کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے عدالت عظمیٰ میں پیش ہوکر غیر مشروط معافی مانگ لی۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پرازخود نوٹس کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ کے طلب کیے جانے پروزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار اور احسن جمیل گجر پیش ہوئے۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ سردار عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب بنے صرف 3 دن ہوئے تھے جب مانیکا فیملی اور پولیس کے واقعے کا علم ہوا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو کام کے طریقہ کار کا علم نہیں تھا، طریقہ کار سمجھ لیا ہے ایک مرتبہ موقع دیا جائے۔

وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ عدالت میں اور عدالت کے باہراپنے رویے پرمعافی مانگتا ہوں، جب سے وزیراعلیٰ بنا ہوں لوگوں سے خود ملتا ہوں۔

سردار عثمان بزدار نے عدالت میں بتایا کہ احسن جمیل گجرکے مانیکا فیملی کے ساتھ ذاتی تعلقات ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئی جی کلیم امام نے پولیس افسران کی ذلت کرا دی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ رات کو کیوں کہا مجھے صبح اس پولیس افسر کی شکل نہیں دیکھنی، وزیراعلیٰ پنجاب نے جواب دیا کہ ایسا حکم جاری نہیں کیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ وزیراعلیٰ صاحب سب رابطے کھل کرسامنے آجائیں گے، پولیس کو غیرسیاسی کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئی جی نے اپنی تحقیقات میں رعایت دینے کی کوشش کی، پولیس افسر کیوں کسی کے ڈیرے پرجائیں، کیا اس انداز سے بڑے صوبے کو چلانا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ احسن جمیل گجربچوں کے گارڈین کیسے ہوگئے، مانیکا فیملی کے بچوں کے والد زندہ ہیں۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ رات ایک بجے کا تبادلہ ہضم نہیں ہورہا، رات گئے تبادلے کے نتائج بھگتنا ہوں گے، آجی جی کلیم امام کے خلاف سخت آبزرویشن دیں گے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں اجلاس غیراخلاقی تھا، اجلاس پرآرٹیکل 62 ون ایف لگ سکتا ہے۔

سپریم کورٹ نے آئی جی کلیم امام کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے سینئر پولیس افسر خالد لک کو نئی انکوائری رپورٹ 15 دن میں پیش کرنے کا حکم دیا۔

آئی جی کلیم امام کی رپورٹ مسترد

چیف جسٹس نے سابق آئی جی پنجاب سید کلیم امام پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ مسترد کی جاتی ہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ آپ کی اور ڈی پی او کی رپورٹ میں تضاد ہے، انہوں نے استفسار کیا کہ احسن جمیل گجرسے آپ نے کیا سوال کیا؟ ایک شخص کو بچانے کے لیےغلط بیانی کر رہے ہیں۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ آپ کو پولیس کے محکمے کی عزت کا پاس نہیں، آپ کی رپورٹ بد نیتی پر مبنی ہے، آپ جانتے ہیں اس کے اثرات کیا ہوں گے ؟۔

سابق آئی جی پنجاب سید کلیم امام نے کہا کہ میں آپ جناب سے رحم کی اپیل کرتا ہوں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو با اختیار بنانا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ جب وزیراعلیٰ پنجاب نے بلایا توآپ نے جانے سے انکارکیوں نہ کیا۔

یاد رہے کہ سابق آئی پنجاب پولیس سید کلیم امام کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کسی کو قصوروار نہیں ٹھہرایا گیا تھا۔

Comments

- Advertisement -