لاہور : چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے احدچیمہ کی گرفتاری پر افسران کواحتجاج سے روک دیا اور کہا کہ کوئی افسر احتجاج نہیں کرے گا، جسے استعفی دینا ہے وہ دے دے، جسے بلایا جائے وہ تعاون کرے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان نے ایل ڈی اے ازخودنوٹس کیس کی سماعت کی ، دوران سماعت چیف جسٹس نے تمام بیوروکریٹس کو احد چیمہ کی گرفتاری پر احتجاج سے روک دیا۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کوئی افسر احتجاج نہیں کرے گا، جس نے استعفیٰ دینا ہے دے دے، جسے بلایا جائے وہ مکمل تعاون کرے، نیب کو کوئی بھی ہراساں نہیں کرے گا۔
جسٹس ثاقب نثار نے پنجاب اسمبلی سے احد چیمہ کے حق میں قرارداد منظور ہونے کے حوالے سے سوال کیا کہ اسمبلی سے کیسے احد چیمہ کے حق میں قرارداد منظور ہوئی، ایسےتو قرارداد آجائے گی کہ سپریم کورٹ نہیں بلا سکتی۔
چیف جسٹس نے احد چیمہ کے کیس کا مکمل ریکارڈ طلب کرلیا اور سوال کیا کہ آج کل احد چیمہ کہاں ہے، جس پر ڈی جی ایل ڈی اے نے جواب میں کہا کہ احد چیمہ نیب کی حراست میں ہے۔
جسٹس ثاقب نثار نے سوال کیا کہ گریڈ 19 کی کیا تنخواہ ہے اور احد چیمہ کتنی لیتے تھے،چیف سیکرٹری نے بتایا کہ تنخواہ ایک لاکھ ہو سکتی ہےلیکن مراعات کے ساتھ 14 لاکھ لے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں : سابق ڈی جی ایل ڈی اے کی گرفتاری: نیب اورپنجاب حکومت آمنے سامنے
دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت نجی کمپنیوں سے معاہدہ کیا، جس پر ڈی جی ایل ڈی اے نے کہا کہ ایل ڈی اےقوانین کےتحت 6کمپنیوں سے معاہدہ کیا، جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ قانون پڑھ کرسنائیں،کہیں نہیں لکھا نجی کمپنی سے معاہدہ کیا جاسکتا ہے، ترقیاتی کام تو ایل ڈی اے نے کروانے ہیں۔
چیف جسٹس نے کمپنیوں کے مالکان ،شیئرہولڈرز کی تفصیلات کی عدم فراہمی پر اظہاربرہمی کرتے ہوئے سوال کیا کہ معاہدے کے وقت ڈی جی ایل ڈی اے کون تھا؟ ڈی جی ایل ڈی اے نے جواب دیا کہ اُس وقت ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ تھے۔
جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ اس احد چیمہ کا نیا عہدہ کیا ہے،ڈی جی ایل ڈی اے نے بتایا کہ احد چیمہ قائد اعظم پاور پلانٹ کے سی ای او ہیں، جس کے بعد عدالت نے احد چیمہ کی سروس پروفائل اورتنخواہوں کاریکارڈطلب کرلیا جبکہ پیراگون سٹی کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔
بعد ازاں کیس کی مزید سماعت 2 ہفتوں کیلئے ملتوی کردی۔