اسلام آباد: گزشتہ روز سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے پر نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائر عیسیٰ سے بدتمیزی کرنے والے وکیل مصطفین کاظمی کو گرفتار کر لیا گیا۔
وکیل سردار مصروف ایڈووکیٹ نے مصطفین کاظمی کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وکیل کو تھانہ سیکریٹریٹ منتقل کر دیا گیا ہے۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے پر نظر ثانی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بدتمیزی کرنے پر مصطفین کاظمی کو کمرہ عدالت سے نکال دیا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی تھی جس میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم اختر اور جسٹس مظہر عالم بینچ میں شامل تھے۔
دوران سماعت مصطفین کاظمی روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کس کی طرف سے ہیں تو وکیل نے بتایا تھا کہ میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ قاضی فائز عیسیٰ نے بیٹھنے کی ہدایت کی اور کہا کہ آپ نہیں بیٹھ رہے تو پولیس اہلکار کو بلالیتے ہیں جس پر مصطفین کاظمی نے کہا کہ آپ کر بھی یہی سکتے ہیں۔
مصطفین کاظمی نے بینچ میں شریک 2 ججز جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر اعتراض اٹھا دیا تھا۔
چیف جسٹس نے سول کپڑوں میں پولیس اہلکاروں کو ہدایت کی تھی کہ اس جینٹلمین کو باہر نکالیں اور وکیل کو کمرہ عدالت سے باہر نکالنے کا حکم دیا تھا۔
جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ یہ سب غیر قانونی بینچ ہے، یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ سپریم کورٹ بار کا اس کیس سے کیا تعلق ہے؟ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بانی پی ٹی آئی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بیرسٹر علی ظفر صاحب یہ کیا ہو رہا ہے؟ اگر یہ نہیں بیٹھتے تو ہم پولیس کو بلاتے ہیں۔
مصطفین کاظمی نے جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ بلائیں آپ پولیس کو اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ تمیز سے بات کریں۔ چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے مکالمے میں کہا تھا کہ بیرسٹر علی ظفر صاحب یہ کیا ہو رہا ہے؟ آپ آئیں اور ہمیں بے عزت کریں؟ ہم یہ ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔
وکیل علی ظفر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں تو بڑے آرام سے بحث کر رہا تھا اور آپ بھی آرام سے سن رہے رہے تھے، اس سب میں میرا کیا قصور ہے؟ تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ پی ٹی آئی کے وکیل ہیں اور آپ بھی سینیٹر ہیں۔
مصطفین کاظمی دوبارہ روسٹرم پر آئے اور کہا یہ پانچ رکنی بینچ غیر قانونی ہے، ہم دیکھتے ہیں یہ فیصلہ کیسے ہوتا ہے، ہم 300 وکیل باہر کھڑے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے علی ظفر سے مکالمے میں کہا کہ یہ سب ہمیں دھمکا رہے ہیں، جس کے بعد پی ٹی آئی کے وکیل کو کمرہ عدالت سے نکال دیا گیا تھا۔