اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نوازشریف خاندان کی سزائیں معطلی کے خلاف نیب کی اپیل پرفریقین کو تحریری معروضات دینے کا حکم دےدیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا اثاثے درختوں پر اگے تھے یا من وسلویٰ اترا تھا ،پاناما اسکینڈل کو ٹرائل کورٹ میں جانا ہی نہیں چاہیے تھا، کیا ضمانت دینے کا فیصلہ ایسے ہوتا ہے؟ بظاہر ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے شریف خاندان کی سزا معطلی کیخلاف نیب اپیل کی سماعت کی۔
نیب پراسیکوٹراکرم قریشی نے دلائل دیتےہوئے کہا کہ نیب قانون کے تحت ہارڈشپ کیسز یعنی شدید علیل اورجان لیوا بیماری میں مبتلا ملزم کی سزا ہی معطل ہوسکتی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ان باتوں کو مدنظر نہیں رکھا۔
چیف جسٹس نے خواجہ حارث کو دلائل دینے کی ہدایت کی اور کہا کہ ہائی کورٹ نے میرٹ اورشواہد پرفیصلہ دیا ہے، جو پہلے کبھی نہیں دیکھا۔
خواجہ حارث نے کامیاب انجیوپلاسٹی پر مبارکباد دیتے ہوئے چیف جسٹس سے کہا آپ کو ڈاکٹر نے آرام کا مشورہ دیا ہے تو آرام کرنا چاہیے، عدالت کا خیرخواہ ہونے کے ناطےآ پ کو آرام کا مشورہ دوں گا۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا بالکل ڈاکٹرز نے مجھے منع کیا ہے، آج کیسزکی سماعت نہ کروں، ابھی بھی ایک ڈاکٹر پیچھے والے کمرے میں موجود ہے لیکن میرے نزدیک یہ مقدمہ اہم ہے، اس لئے آج آنا مناسب سمجھا، مقدمے کی سمت کا تعین ہوجائے تو مزید مقدمہ اگلی سماعت تک مؤخرکر دیں۔
خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اثاثے درست طریقے سے بنائے یا نہ ہونے سے متعلق یہ مقدمہ مکمل تحقیقات کا تقاضا کرتا ہے کیوںکہ اثاثے نوازشریف کے بڑے بیٹے کی ملکیت ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ثابت کرنا آپ کی ذمہ داری ہے، کیا من وسلویٰ اترا تھا، اثاثے ہوا میں تو نہیں آئے ہونگے ،کیا ہوا میں اثاثے بن گئے۔
وکیل صفائی نے کہااس سلسلےمیں آپ کو قانون بتاؤں گا،جس پر جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے واضح کیا کہ قانون وہ ہےجو ہم ڈکلیئرکریں گے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ پاناما اسکینڈل کو ٹرائل کورٹ میں جانا ہی نہیں چاہیے تھا، سپریم کورٹ کو خود دستاویزات کا جائزہ لیکر فیصلہ کرنا چاہیے تھا، سپریم کورٹ نے مقدمہ ٹرائل کورٹ بھیج کر مہربانی کی،چار مرتبہ موقف تبدیل کیا گیا، پہلے قطری اور پھر بعد میں دوسرا موقف اختیار کیا۔
چیف جسٹس نے ہائیکورٹ کے فیصلے پر ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ نے مقدمے کے تمام حقائق پر بات کی ،کیا ہائی کورٹ نے ضمانت کی درخواست پر حتمی فیصلہ دے دیا؟ کیا ضمانت دینے کا فیصلہ ایسے ہوتا ہے؟ ہائیکورٹ کے فیصلے کی آخری سطر دیکھیں ،ہائیکورٹ نے کس طرح کے الفاظ استعمال کیے۔
جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ بظاہر ہمارے پاس ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کیا ایسی کوئی مثال ہے جس میں نیب کورٹ کے فیصلے کے نقائص بیان کیے گئے ہوں۔
جس پر وکیل صفائی خواجہ حارث نے کہا آُپ نے سوال کیا ہے تو مجھے اس کا جواب دینے کی اجازت دیں ، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ اپنے نکات اور معروضات ہمیں لکھ کردیں ، آپ کو دلائل کے لئے صرف ایک دن ملے گا ۔
عدالت نے فریقین کے وکلاء کوتحریری معروضات پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 12 نومبر تک ملتوی کر دی۔
مزید پڑھیں : سزا معطلی کے خلاف نیب اپیلوں پرسماعت، نوازشریف اور مریم نواز کونوٹس جاری
یاد رہے گذشتہ سماعت میں عدالت نےنوازشریف اورمریم نوازکونوٹس جاری کیاتھا، چیف جسٹس نے کہا تھا کیپٹن ریٹائر صفدر کو نوٹس جاری نہیں کررہے، ہائی کورٹ نےاپنے فیصلے میں غلطی کی ہے،سزا کی معطلی کا فیصلہ دو سے تین صفحات پر ہوتا ہے ، تینتالیس صفحات کا فیصلہ لکھ کر پورے کیس پر رائے کا اظہار کیا گیا۔
یاد رہے نیب نے شریف خاندان کی سزا معطلی کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے انیس ستمبر کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائرکی تھی ، جس میں فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔
اپیل میں موقف اختیار کیا گیا ہائی کورٹ نے مقدمے کے شواہد کا درست جائزہ نہیں لیا، ہائی کورٹ نے اپیل کے ساتھ سزا معطلی کی درخواستیں سننے کا حکم دیا تھا۔
خیال رہے 19 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کےدو رکنی بینچ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے مختصر فیصلے میں نوازشریف، مریم اور صفدر کی سزائیں معطل کرکے تینوں کی رہائی کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے نواز شریف، مریم نواز، محمد صفدر کو 5،5لاکھ کے مچلکے جمع کرانے کی بھی ہدایت کی تھی۔
بعد ازاں چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاویداقبال کی زیرصدارت اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطلی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج کیا جائے گا۔
تین اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس گل حسن نے نواز شریف، مریم نواز اور صفدر کی ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ نیب نے ضمانت کی درخواستوں پر بحث کے لئے زیادہ سہارا پاناما فیصلے کا لیا۔ بادی النظر میں ملزمان کو دی گئی سزائیں زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتیں، احتساب عدالت نے اپارٹمنٹس خریداری میں مریم نواز کی نوازشریف کو معاونت کا حوالہ نہیں دیا، مریم نواز کی معاونت کے شواہد کا ذکربھی نہیں۔
واضح رہے 6 جولائی کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو10 مریم نواز کو7 اور کیپٹن رصفدر کو ایک سال کی سزا سنائی تھی۔
ایوان فیلڈ میں سزا کے بعد 13 جولائی کو نوازشریف اور مریم نواز کو لندن سے لاہورپہنچتے ہی گرفتار کرلیا گیا تھا ، جس کے بعد دونوں کو خصوصی طیارے پر نیو اسلام آباد ایئر پورٹ لایا گیا، جہاں سے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔